اخوّت و احساس — عمارہ کامران
’’یہ بے بی، اُف! یہ تو بہت چھوٹا ہے، بالکل ننھا منا سا، دیکھنے میں تو عادل ماموں کے بیٹے جتنا لگتا ہے جسے میں ممی کے ساتھ دیکھنے گئی تھی۔ آنٹی بتا رہی تھیں
’’یہ بے بی، اُف! یہ تو بہت چھوٹا ہے، بالکل ننھا منا سا، دیکھنے میں تو عادل ماموں کے بیٹے جتنا لگتا ہے جسے میں ممی کے ساتھ دیکھنے گئی تھی۔ آنٹی بتا رہی تھیں
“بابا آج مجھے فائیو سٹار میں ڈنر کرنا ہے ۔” میرب آصف کے گلے میں جھولتے ہوئےفرمائش کر رہی تھی۔ “جہاں میری جان کہے گی ہم وہیں چلیں گے۔” آصف نے اس کے گال پر
قطرہ قطرہ بن میں نے چلنا سیکھا ہے ہوا کے ذروں میں مجھے سوارر ہنا ہے نزاکت لپیٹ کر شعاعوں سے ابھرناہے مگر پھوٹ پھوٹ مجھے بہنا ہے پر گھونٹ گھونٹ مجھے سہنا ہے میرے
”تمہیں پتا ہے امامہ! نوسال میں کتنے دن، کتنے گھنٹے، کتنے منٹ ہوتے ہیں؟” خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی آواز میں جسم کو چٹخا دینے والی ٹھنڈک تھی۔ امامہ نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے نل
مریم سب بچوں کو لے کر صحن میں ہوم ورک کروا رہی تھی جب اس نے نوٹ کیا کہ عون بہت چُپ چُپ ہے بلکہ بہت دنوں سے وہ ایسا ہی تھا ابھی بھی سعد
امامہ نے ابھی کافی نہیں پی تھی۔ کافی بہت گرم تھی اور وہ بہت گرم چیزیں نہیں پیتی تھی۔ اس نے کسی زمانے میں میز کے دوسری جانب بیٹھے ہوئے شخص کو آئیڈیلائز کیا تھا۔
اگر اُس کے پاس سو دلیلیں تھیں تو آپاؤں کے پاس ہزار تاویلیں۔ ہر تاویل اس کی دلیل پر ہتھوڑے کی ضرب ثابت ہوئی۔ ہتھوڑے کی ضرب لوہا برداشت نہیں کر پاتا آخر لوہار کی
وسیع سرخ اینٹوں کے صحن کے اطراف دیواروں کے ساتھ کیاریاں بنائی گئی تھیں جن میں لگے ہوئے سبز پودے اور بیلیں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی دیواروں کے بیک گراؤنڈ میں بہت خوب صورت
Alif Kitab Publications Dismiss