تیتری کی کوک گائوں میں سنائی دے رہی تھی۔ روٹی پکانے کے بعد خواتین نے سردی کی شدت کو کم کرنے کے لیے کوئلے انگیٹھیوں میں ڈال کر کمروں میں لا رکھے تھے۔ احمد دین
”یہ مٹھائی لے کر آئی تھی۔” خالا گرم جوشی سے بولیں۔ ”ہاں ہاں! جہانگیر آ رہا ہو گا ناں۔۔ چھٹی منظور ہو گئی ہو گی اس کی۔” ماں نے کہا۔ ”ہاں جی آپا۔۔ آرہا ہے
سکول سے دونوں بچے ایک بجے تک آ ہی جاتے تھے اور ابھی میڈ نے انہیں کھانا کھلا کر سلا دیا ہوگا۔ وہ اندازے لگانے لگی عموماً اس کی واپسی ساڑھے تین کے بعد ہی
اس کی باتیں مجھے پریشانیوں کے دشت میں دھکیل رہی تھیں۔میں اجو کا سناٹوں میں گھرا یہ روپ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ”اجو میرے دوست…بات کیا ہے؟ کیوں اتنے دکھی ہو گئے ہو؟کوئی بوجھ
جادو کا آئینہ احمد عدنان طارق سین نمبر ١ ”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تم ہر وقت غصّے میں رہ کر کیوں ماتھے پر تیوریاں چڑھائے رکھتے ہو؟” معاذ کی امّی بولیں۔ معاذ نے ان
ہوا اور بادل سارہ قیوم ایک تھا بادل! نرم نرم، جیسے کہ روئی کا کوئی گالا، اس میں بہت سا پانی بھرا ہواتھا، اتنا کہ بادل بے چارے سے چلا نہ جاتا تھا۔ وہ چپ
گو کہ امریکا آنے سے پہلے ہی ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس حسین دیار کے دلکش باشندے ہمیں ہمیشہ غیر ہی سمجھیں گے، لیکن اپنی قابلِ رحم اور انتہائی دکھی ‘آسمان سے گرے