”ڈی ٹیکٹو فرے، کیا میں آپ سے انتہائی اعتماد میں کچھ بات کر سکتی ہوں کہ یہ گفتگو صرف آپ کے اور میرے بیچ رہے گی؟” طاہرہ افتخار نے گہرا سانس لے کر پوچھا ۔
”یہ گھاس تنکوں کے جھونپڑ سے نفرت کرنے لگے ہیں ۔وہ اپنے پتھر کے پختہ گھر چاہتے ہیں اور اپنے مرتبان سونے کے سکوں سے بھرا۔” عبدل کے لہجے میں ناراضی تھی۔داروغہ لمحہ بھر اس
ڈگا ڈگ کے اسٹیشن پر جب گاڑیوں کی آمد کا وقت قریب ہوتا تو سگریٹ فروش گاہشا وہاں ہمیشہ سب سے پہلے آپہنچتا۔ وہ ٹھیک سمجھا کہ اسٹیشن اس کی سب سے بڑی منافع بخش
جس شخص کی یہ سرگزشت ہے وہ اپنے قصبے کا امیر ترین اور بار سوخ دہقان تھا۔ اس کا نام تھورڈا دراس تھا۔ ایک دن وہ اپنے قصبے کے واحد پادری کے دارالمطالعہ میں گیا۔
”جب سے تم گئے سنا ہے معطر دیوانی ہو گئی۔تمہارے چچا نے تو اسی روز درمیان کا دروازہ میخیں ٹھوک کر بند کر دیا تھا اور بڑے دروازے کوپھلانگنے کی میری ہمت نہیں ہوئی۔ لیکن
خوشبو کبھی ٹھہر نہیں سکتی۔ وہ لمحہ بہ لمحہ بے چینی سے گھومتی پھیلتی رہتی ہے کیوں کہ اس کی کوکھ میں ایک اسرار ہوتا ہے اور وہ اس اسرار کا پردہ رکھنے کی کوشش