ورثہ — ارم سرفراز

مریم نے آفس کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ صبح کی تیز بارش، اب ہلکی سی پھوار کی شکل دھار چکی تھی۔ امریکا کے شہر سیاٹل میں سارا سال بارش کا نہ ہونا عجیب بات ہوتی تھی ، اس کا ہونا نہیں ۔ مریم کا گھر آفس سے تھوڑی ہی دور تھا اور وہ اکثر پیدل ہی آ جاتی تھی ۔ اس نے پرس اٹھایا، چھتری کھولی اور باہر نکل آئی ۔ بہار کی آمد تھی اور درختوں کی ویران شاخیں، نئے پتوں سے بھرنے لگی تھیں ۔ مستقل بارش نے پتوں اور پھولوں کی رنگینی کو مزید تازہ کر دیا تھا اور ہوا میں مٹی کی سوندھی خوشبو رچی ہوئی تھی۔
مریم کے گھر کا راستہ چھوٹے سے شاپنگ ایریا سے گزرتا تھا جس میں موجود دکان دار اب اسے پہچانتے تھے اور اکثر سامنا ہونے پر خوش دلی سے ’’ہیلو‘‘ بھی کرتے تھے۔ اپنے اونچے قد، چمکیلے گہرے بھورے بال اور کالی آنکھوں کے ساتھ وہ چالیس سال کی عمر میں بھی خاصی دلکش تھی ۔ امریکا میں ہی پلنے بڑھنے کی بہ دولت اس کے طور طریقے بھی وہاں کے گورے باشندوں کی طرح ہی تھے ۔ان لوگوں کو بھی اس میں الگ صرف اس کا نام اور اس کی مشرقی نین نقش نظر آتے تھے یا پھر اس کا مسلمان ہونا جس کا ذکر ایک انتہائی نازک موضوع ہونے کی بنا پر وہ اپنی گفت گو میں شاذ و نادر ہی لاتے تھے۔ مذہب کے معاملے میں مریم نے امریکیوں کو دو طرح کا پایا تھا ۔ یا تو انتہائی منہ پھٹ اور بد لحاظ یا پھر انتہائی تمیزدار اور ، شعوری یا لاشعوری طور پر دامن بچاتے ہوئے ۔ اس کا پالا دونوں سے ہی پڑتا تھا اور دونوں میں دوسری قسم ہی ہر لحاظ سے غنیمت تھی ۔
مریم کا شوہر علی بھی وہیں کا پیدائشی مسلمان تھا۔ ان کی شادی کو سولہ سال ہو چکے تھے۔ ایک ہی کلچر میں پلنے بڑھنے کی بدولت ان میں کافی ذہنی مطابقت تھی۔ بحث اور چھوٹی موٹی لڑائیاں اتنی ہی تھیں جتنی کسی بھی شادی شدہ گھر میں ہوتی تھیں ۔ لیکن ہر بحث اور لڑائی خوش اسلوبی سے نمٹ جاتی تھی ۔ شاید اس کی وجہ مریم کا اس بات پر یقین تھا کہ شادی کی کام یابی کا انحصار کم توقعات اور زیادہ ہم آہنگی کے اصول پر ہوتا ہے۔ وہ فطرتاً ہی صلح جو تھی اور یہ وہ خاصیت تھی جو وہاں پلی بڑھی پاکستانی عورتوں میں نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ان کے دو بچے رائنا اور عمر ان کی فیملی کو مکمل کرتے تھے۔
ادھر ادھر کی سوچوں میں بھٹکتا ہوا اس کا ذہن اپنے اور علی کے درمیان ہونے والی حالیہ بحث پر جا کر اٹک گیا جس کا حل اس کی صلح جوئی بھی نہیں نکال پا رہی تھی ۔ مسئلہ علی کا اس کی اس adoption agency میں نوکری کا تھا جس میں وہ پچھلے چار سال سے کام کر رہی تھی ۔ اول تو وہ یہ پارٹ ٹائم نوکری اور وہ بھی ہفتے میں تین دن پیسے کے لیے نہیں بلکہ وقت کے ایک مثبت مصرف کی خاطر کر رہی تھی ۔ اس کے باوجود بھی علی کی ناپسندیدگی اسے کچھ بھا نہیں رہی تھی ۔ علی کو اس کے نوکری کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، صرف اس جگہ پر تھا جہاں وہ نوکری کر رہی تھی ۔ مریم بار بار اس نوکری کی سہولتیں گنواتی کہ وہ گھر سے قریب ہے، پارٹ ٹائم ہے اور اسے ایک حقیقی خدمت ِخلق کا موقع دیتی ہے۔ گو کہ علی کی اس خاص نوکری سے ناگواری کے پس ِپہلو سے وہ آگاہ تھی لیکن اس کے نزدیک اس وجہ سے علی کی اس نوکری کے لیے حمایت میں اضافہ ہونا چاہیے تھا نہ کہ ناگواری میں ۔
اس کے گھر پہنچنے تک ہلکی سی پھوار بھی مکمل طور پر رک چکی تھی ۔ لال اینٹوں ، چوڑی فرنچ کھڑکیوں، اور وسیع فرنٹ لان والا اس کا گھر سٹریٹ پر دوسرے گھروں سے ملتا جلتا تھا ۔ اینٹوں کی سرخی پر چڑھتی ہری بیلوں اور جگہ جگہ موجود سفید اور پیلے پھولوں نے گھر کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کر دیا تھا ۔ ڈرائیو وے میں علی کی گاڑی کھڑی تھی۔ ایک انجینئرنگ فرم میں پارٹنر ہونے کی وجہ سے اسے اکثر جلدی گھر آ جانے اور گھر سے کام کرنے کی آسائش تھی ۔
مریم کچن کی دروازے سے اندر آئی تو وہ کچن کے اندر کھڑا فون پر کسی دوست سے بات کر رہا تھا ۔
’’ہاں ہاں! صنم کو بھی ضرور ساتھ لانا ۔ویسے بھی بیویوں کے بغیر کہیں جاؤ تو انہیں شک کی شدید تکلیف ہو جاتی ہے۔” علی نے مریم کو اندر آتے دیکھ لیا تھا اور اپنے دوست کو یہ آخری ہدایت غالباً اسے ہی چھیڑنے کے لیے دی گئی تھی۔ علی کے جوابی قہقہہ سے صاف ظاہر تھا کہ دوسری طرف سے اس بات کا جواب بھی کچھ اُلٹا ہی آیا تھا۔
’’ہاں! مریم بھی ابھی ابھی آئی ہے ۔ ٹھیک ہے، پھر ایک گھنٹے میں ملتے ہیں۔‘‘علی نے فون بند کیا اور اس کی طرف مڑا ۔ لیکن اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی مریم نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا ۔




’’ٹھہرو! مجھے بوجھنے دو یہ کون ہے۔‘‘ اس نے سوچنے کی ایکٹنگ کی۔
’’رضوان تھا اور ایک گھنٹے میں صنم کے ساتھ آ رہا ہے؟‘‘علی زور سے ہنس پڑا ۔
’’یہ تو تم سب سن ہی چکی تھی۔تمہارا کیا کمال ہو؟اتم لوگ تو ویسے ہی ہم لوگوں کے ہر فون پر کان لگا کر بیٹھی ہوتی ہو۔‘‘ اس نے اسے چھیڑا ۔
’’جیسے تم لوگ نہیں بیٹھے ہوتے۔‘‘مریم نے بھی فٹ سے جملہ داغا۔
’’ہاں بھئی ! میں ہر وقت بھول جاتا ہوں کہ کچھ عورتیں خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مند بھی ہوتی ہیں۔ ان سے آپ کوئی بحث نہیں جیت سکتے ۔‘‘مریم اس کی چاپلوسی پر مسکرا دی ۔
’’کم خوب صورت تو آپ بھی نہیں لیکن چھوڑو یہ سب باتیں ۔ یہ بتاؤ کہ یہ لوگ اچانک کیوں آرہے ہیں؟‘‘ وہ اور علی باتیں کرتے کرتے اپنے کشادہ فیملی روم میں آ چکے تھے۔
’’رضوان نے جو نئی جاب کی آفر قبول کی ہے، اسی کے بارے میں کچھ ڈسکس کرنا چاہ رہا ہے وہ۔‘‘ علی نے اپنی پسندیدہ آرام کرسی پر جگہ سنبھال لی تھی اور اب ٹی وی ریموٹ کے لیے نظریں دوڑا رہا تھا ۔
’’تم تھکی ہوئی تو نہیں ہو؟‘‘
’’نہیں تھکی! ہوئی تو نہیں ہوں۔‘‘ وہ بھی اسی کے پاس پڑے صوفے پر بیٹھ گئی ۔ پھر اچانک اسے کچھ خیال آیا۔‘‘
’’تم نے آج امی جی کو کال کی تھی؟‘‘ اس نے اپنی ماں کے بارے میں پوچھا۔
’’میں نے تو کال نہیں کی۔میرے خیال سے امی جی اور ابو دونوں اس وقت اتنا مزا کر رہے ہوں گے اور وہ تو میرا فون بھی نہیں اٹھائیں گے۔‘‘ وہ اپنی ہی بات پر ہنسا ، مریم بھی مُسکرا دی۔
ان دنوں ان کے دونوں بچے، بارہ سالہ عمر اور چودہ سالہ رائنا اپنی سپرنگ بریک کی ایک ہفتے کی چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے نانا نانی، شازیہ اور نذیر عبید کے پاس لاس اینجلس گئے ہوئے تھے۔ یہ ان دونوں کی چھٹیوں کا معمول تھا اور دونوں پارٹیاں نہ صرف ان ملاقاتوں کی شدت سے منتظر رہتیں۔ بلکہ ان کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنے کے نت نئے طریقے بھی سوچ کر رکھتی تھیں۔ دو دن پہلے ہونے والی گفت گو میں بھی مریم کو اپنے اندازوں کے مطابق ہی معلومات ملی تھیں ۔ نانا اور نواسہ گھر کے پاس والی جھیل میں جی بھر کر مچھلیوں کا شکار کر رہے تھے جب کہ رائنا اپنی نانی کے ساتھ مال میں شاپنگ اور نئی موویز دیکھنے میں مشغول تھی ۔
’’ان لوگوں کے لیے کوئی خاص چیز بنانی ہے کیا؟‘‘ مریم کا اشارہ رضوان اور صنم کی طرف تھا ۔
’’نہیں! وہ لوگ کھانے پر کہیں انوائٹڈ ہیں اس لیے کھانا نہیں کھائیں گے ۔‘‘
’’ٹھیک ہے! میں چائے اور سموسے بنا دوں گی۔‘‘ علی نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا ۔ اس نے اپنا من پسند سپورٹس چینل لگا لیا تھا ۔
’’تمہاری آفس کی پارٹی کیسی رہی؟‘‘ علی کو اچانک خیال آیا ۔ البتہ آنکھیں اس کی ابھی بھی ٹی وی پر ہی لگی ہوئی تھیں۔
مریم کے آفس میں اس کی ایک کولیگ جاب چھوڑ جا رہی تھی اور اس کے لیے آفس والوں نے فیئرویل پارٹی کا انتظام کیا تھا۔
’’اچھی تھی پارٹی! الیسن کو اچھی فل ٹائم جاب مل گئی ہے ۔ خوش ہے وہ۔‘‘ لیکن مریم کا عام سا تبصرہ اس کے اپنے ہی گلے پڑ گیا۔ علی کو اچانک ان دونوں کی آپس کی وہ بحث یاد آ گئی جس کے حل کا کوئی سرا ابھی تک ان کے ہاتھ نہیں لگا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ مریم اس بار اپنے مؤقف پر خاموشی سے ہی سہی، لیکن ڈٹی ہوئی تھی۔
’’تمہیں بھی اتنی ہی اچھی فل ٹائم جاب مل سکتی ہے،۔‘‘ علی نے اسے پھر سے یاد دلایا۔
’’بلکہ جاب آفر بھی آئی پڑی ہے لیکن تم ہو کہ ضد کیے جا رہی ہو۔‘‘ علی کے لہجے میں ہلکی سی ناگواری جھلک رہی تھی۔
’’اپنی سائیکولوجی کی اتنی اچھی ڈگری کو ضائع کر رہی ہوتم۔‘‘
علی کی دوست کی بیوی قریبی اسکول ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن میں اچھی پوزیشن پر تھی اور اسے وہیں پر اسکول سائیکولوجسٹ کے طور پر پچھلے ایک ماہ سے مستقل بلا رہی تھی ۔ مریم کو اکثر شک ہوتا تھا کہ جاب کی یہ آفر بھی کہیں علی کے دباؤ کی وجہ سے ہی نہ ہو ۔مریم کا اس وقت بحث کا موڈ تو نہیں تھا لیکن علی کو جواب دینا بھی ضروری تھا ۔
’’علی میری جاب سے متعلق تمہارے احساسات کا مجھے اندازہ ہے لیکن مجھے وہاں کام کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘ اس نے سبھا سے بات شروع کی۔
’’تمہیں اچھی طرح پتا ہے کہ میں یہ جاب پیسوں کے لیے نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کے تحت کرتی ہوں۔‘‘
’’اسکول سائیالوجسٹ کی جاب بھی ایک انسانی ہم دردی ہو گی۔‘‘ علی نے اس کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی ۔
’’لیکن یہ پارٹ ٹائم ہے اور گھر سے نزدیک بھی۔‘‘
’’اسکول بھی یہاں سے صرف تین میل دور ہے۔‘‘ اس نے اس کے اس نقطے کو بھی چیلنج کیا۔ مریم نے اس بار بات ختم کرنے کی کوشش کی۔
’’کیا ہم اس ٹاپک پر پھر کبھی بات کر سکتے ہیں؟ ابھی ہمارے پاس مہمان بھی آنے والے ہیں۔‘‘
’’میں اس ٹاپک پر بار بار بات کرنا ہی نہیں چاہتا مریم۔ میں تو اسے ختم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اب علی کی آواز میں ایک برہمی نمایاں تھی ۔ ٹی وی کا والیوم بھی اس نے بند کر دیا تھا۔
’’لیکن تم ہو کہ بات کو ختم ہونے ہی نہیں دے رہیں۔‘‘
علی کے اچانک بجنے والے فون نے مریم کو جواب دینے سے بچا لیا تھا ۔ ویسے بھی مریم کے پاس اسے دینے کوئی جواب تھا ہی نہیں۔ مریم نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا ۔
’’وعلیکم السلام امی جی، کیسی ہیں آپ؟‘‘ علی نے خوش دلی سے اپنی ساس کو سلام کیا تھا ۔ یہ علی کی قابلِ تعریف صفت تھی کہ وہ ایک آدمی کا غصہ کسی دوسرے پر نہیں نکالتا تھا۔ اس وقت بھی اس کے لہجے میں چند ہی لمحوں پہلے مریم سے ہونے والی گفت گو کے تناؤ کی کوئی کیفیت نہیں تھی۔
’’بچے آپ کو بہت زیادہ تنگ تو نہیں کر رہے ؟ اور عمر اپنی کتابوں کی ریڈنگ کر رہا ہے؟‘‘ وہ اب انہیں بچوں کے متعلق ہدایت دے رہا تھا۔
’’رائنا کو انٹرنیٹ پر زیادہ ٹائم مت بیٹھے رہنے دیا کریں۔‘‘
’’جی جی!ہم بھی خیریت سے ہیں۔ بچے آئیں تو ان کی بھی ہم سے بات کروا دیں۔‘‘ بچے غالباً گھر پر نہیں تھے۔ کچھ منٹ اور بات کرنے کے بعد علی نے فون اسے تھما دیا ۔ مریم فون لے کر کچن میں آ گئی ۔ باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ وہ مہمانوں کے لیے سنیکس کی تیاری بھی کر رہی تھی ۔
“مریم تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟” شازیہ عبید نے اچانک ہی پوچھا۔ ان کی آواز میں تشویش تھی۔
’’علی بھی کچھ ٹینس لگ رہا تھا۔‘‘ مریم نے گہرا سانس لیا۔ مائیں اولاد کے مزاج کی سفاکی کی حد تک رسائی رکھتی ہیں اور شازیہ سے تو باتیں چھپانا نا ممکن تھا ۔ علی کے لہجے کی خوش گواریت کے باوجود انہیں کچھ غلط لگ رہا تھا۔
’’نہیں امی جی! ہم دونوں ٹھیک ہیں۔‘‘ مریم نے انہیں اطمینان دلانے کی کوشش کی۔ ایک بحث سے جان بچا کر وہ اب دوسری میں نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
’’جاب سے آیا ہے تو اسی لیے تھکا ہوا ہے ۔ شاید اسی لیے آپ کو لگ رہا ہوگا۔‘‘
’’تم دونوں کی پھر کوئی لڑائی تو نہیں ہوئی؟ اب کس بات پر ہوئی ہے؟‘‘ شازیہ نے جیسے اس کی کوئی بات سنی ہی نہیں اور فوراً ہی وجہ کی جڑ تک پہنچنے کی مہم شروع کر دی ۔ مریم نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔ اس کی اپنی ماں کیچھٹی حس اور اندازوں پر فولادی اعتماد تھا ۔ ان سے مزید چوہے بلی کا کھیل کھیلنا فضول ہی ہوتا ۔
’’وہی جاب والی بات اور کیا۔‘ ‘مریم نے بتایا۔
’’کہہ رہا ہے ریزائن کر دو ۔ اپنی ہی ضد پر اڑا ہوا ہے۔‘‘ مریم کی آواز میں بے زارگی تھی ۔ شازیہ نے گہرا سانس لیا ۔
’’تم بھی تو اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہو۔‘‘ انہوں نے کسی بھی لگی لپٹی رکھے بغیر اسے گھرکا۔
’’اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
’’امی جی میں لمبی بات نہیں کر سکتی ۔ علی کا دوست آنے والا ہے۔‘‘ مریم نے انہیں فی الحال ٹالا۔
’’مریم تم یہ جاب چھوڑ دو ۔‘‘ شازیہ نے اسے سمجھایا۔
’’صرف ایک نوکری ہی تو ہے ۔ اس کے پیچھے اپنے گھر کا سکون کیوں برباد کرتی ہو؟‘‘ ہر عقل مند ماں کی طرح انہوں نے بھی اسے عقل دینے کی کوشش کی ۔
’’میں آپ سے پھر بات کروں گی امی جی۔‘‘ مریم نے بات ٹالنے کی غرض سے کہا۔
’’مریم اب بہت دیر ہو چکی ہے۔‘‘ شازیہ نے اچانک کہا، مریم ایک لمحے کو منجمد ہو گئی۔ خدا حافظ کہتے کہتے شازیہ انتہائی خار دار رستے پر جا نکلی تھیں۔
’’تم اب اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتیں۔‘‘ مریم جواب دینے کے قابل نہیں رہی تھی ۔ اس کے جاب نہ چھوڑنے کا سرا انھوں نے پہلی بار اس سالوں پرانی بات سے جوڑا تھا جسے بھولنے کی لاکھ کوشش اسے مزید اس کی یاد دلائے جاتی تھی ۔ شاید انہیں ہمیشہ سے ہی علم تھا لیکن لاعلمی کا ڈھونگ رچا کر وہ صرف اس کا بھرم رکھ رہی تھیں ۔ لیکن جو بھی تھا ، اس بات کی تردید بہرحال بے معنی تھی ۔
’’مجھے معلوم ہے امی جی۔‘‘ اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
’’لیکن ان لاوارث بچوں کو اچھے گھروں اور خاندانوں میں بھیجتے ہوئے میرے دل کو ایک عجیب سا اطمینان ہوتا ہے۔‘‘
’’وہ بھی ایک اچھے ، مضبوط گھر اور ذمہ دار لوگوں کے ہاتھوں میں گئی ہے۔‘‘ مریم گویا گونگی ہی ہو گئی ۔ شازیہ کو بات کی نبض پکڑنا خوب آتا تھا لیکن یہ ان کی آواز کا وثوق تھا جس نے اسے ششدر کر دیا تھا ۔
’’آپ کو کیسے معلوم؟‘‘ مریم کی آواز محض ایک سرگوشی تھی ۔
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ مریم سمجھ نہیں پائی کہ وہ ان کا یقین تھا کہ محض ان کا وجدان جو ان کے لہجے کو اس قدر اعتماد بخش رہا تھا ۔ ان کی بات ابھی جاری تھی۔
’’اپنی اس نوکری کو ایک مرہم کے طور پر استعمال کرنا چھوڑ دو کیوں کہ تمہاری یہ بے کار سی تدبیر علی کے لیے تکلیف بن رہی ہے۔” مریم نے خاموشی سے فون بند کر دیا ۔اس کی زبان مزید اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔
وہ کچن کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ۔ لان کی تازہ ہریالی پر شام کے سائے اتر رہے تھے لیکن اس وقت رات کا گہرا ہوتا اندھیرا اسے سکون دے رہا تھا ۔ اسے اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ ماں کی یہ دو ٹوک گفت گو اس کے گھٹنے ٹیکنے کا سبب بن جائے گی ۔
٭…٭…٭
امریکا کے شہر نیو آرلینز سے وہ ایک بے حد ضروری فون کال کا منتظر تھا ۔ یہ کچھ دنوں کا نہیں بلکہ کئی مہینوں کا بے چین انتظار تھا جو اب اختتام پر تھا ۔ ہر گزرتا لمحہ اس کے دل میں موجود بے نام اندیشوں اور اضطراب میں اضافہ کر رہا تھا ۔ اس کا ذہن مستقل اپنے فیصلے کے ممکنہ نفع اور نقصانات کو ہر زاویے سے جانچنے میں مصروف تھا لیکن اپنے دل کی گہرایوں میں اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ کسی بھی تجزیے اور سوچ و بچار کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کا سوال تو وہاں ہوتا ہے جہاں ایک چیز کے علاوہ کسی دوسری چیز کے انتخاب کا اختیار بھی پاس ہو ۔ یہاں تو مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق کچھ بھی اور کرنے کا اختیار تھا ہی نہیں ۔
متوقع فون کال اگلی صبح بلاخر آ ہی گئی ۔ اس کال کے فوراً بعد اس نے امریکی ریاست کولاراڈو کے شہر ڈینور میں مقیم اپنے دوست کو فون کیا ۔ دونوں نے نیو آرلینز کی فلائٹس بک کروا لیں ۔ ان دونوں نے اسی دن چار بجے کے قریب آگے پیچھے ہی نیو آرلینز انٹرنشنل ائیرپورٹ پر پہنچنا تھا ۔انہیں امید تھی کہ اس ٹائم تک بچہ اس ایڈاپشن ایجنسی تک پہنچ چکا ہوتا جہاں انھیں جانا تھا ۔ صبح صبح اپنے پاس آنے والے فون پر وہ یہ پوچھنا ہی بھول گیا تھا کہ بچہ لڑکی تھی یا لڑکا لیکن اس بات سے اسے کوئی فرق پڑتا بھی نہیں ا تھا۔
دونوں دوست دوپہر ڈھلنے پر مقررہ وقت پر نیو آرلینز ائیرپورٹ، پھر ائیرپورٹ سے گاڑی رینٹ کر کے پانچ میل دور اس ایڈاپشن ایجنسی پہنچے جو اس ہسپتال سے منسلک تھی جہاں بچے کی پیدائش کچھ گھنٹے پہلے ہی ہوئی تھی ۔ ائیرپورٹ پر لینڈ کرتے ہے اسے ٹیکسٹ آ گیا تھا کہ وہ ایک بچی ہے ۔ اس کا دل ایک لمحے کو لرزا اور ساتھ ہی اس کے حوصلے کو بے پناہ تقویت پہنچی کہ اس نے بلا شبہ ایک بہترین فیصلہ کیا تھا ۔ اس کا دوست ایسے کسی اندیشوں کا شکار نہیں تھا ۔ وہ صرف خوش تھا ، بے حد مسرور ۔
’’تم مجھ پر مکمل بھروسہ کر سکتے ہو۔‘‘ اس نے اسے پچھلی کئی بار دی جانے والے تسلی ایک بار پھر دہرائی ۔
’’میں اس بچی کی پرورش بالکل اپنی سگی اولاد کی طرح کروں گا۔‘‘ اس کے دوست کو بچے کا لڑکا یا لڑکی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔ جواب میں اس نے کچھ نہیں کہا، صرف خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا ۔
’’لیکن ایک بات مجھے بتاؤ۔‘‘ اس کے دوست کے ذہن میں اچانک خیال آیا۔
’’وہاں اور بھی نوزائیدہ بچے ہوں گے ۔ تم اسی بچی کو کیسے پہچان پاؤ گے؟ میرا مطلب ہے کم از کم مجھے تو تمام نوزائدہ بچے ایک ہی جیسے دکھتے ہیں۔‘‘
وہ اپنے دوست کی سادہ لوحی پر محض مُسکرا کر رہ گیا ۔ اب وہ اسے کیا بتاتا کہ کوئی اپنے خون کو بھلا کس طرح نہ پہنچانتا؟
ایڈاپشن ایجنسی والوں کے پاس اس وقت پانچ نوزائیدہ بچے، نامعلوم اور بے نام طریقے سے گود لیے جانے کے لیے موجود تھے۔نرسری کے شفاف شیشے کی دیوار سے اندر دیکھتے ہوئے اس نے فقط ایک نظر میں ہی اسے پہچان لیا تھا۔ اس نے سنا تو تھا لیکن اب اسے یقین ہو گیا کہ خون واقعی خون کو کھینچتا ہے ۔ یہ تو محبت کی لازوال اور انمول ترین مثال ہوتی ہے ۔
اس کی نشان دہی پر اندر موجود نرس نے بچی کو نرم سفید دلائی میں لپیٹا اور باہر لا کر اس کے ہاتھوں میں تھما دیا ۔ اس کے دل کو ایک جھٹکا سا لگا اور آنکھوں کے سامنے نمی کی دھند آ گئی ۔ سو بچوں میں بھی وہ اپنے خون کو پہچان لیتا، یہ تو صرف پانچ تھے ۔ اس نے ہلکے سے بچی کے پھولے ہوئے گلابی گال کو چھوا ۔ بچی نے اپنی خوب صورت ، گہری بھوری آنکھیں کھول دیں اور انتہائی خاموشی اور سنجیدگی سے اپنے اوپر جھکے دونوں لوگوں کے چہرے کو دیکھنے لگی ۔ ایک چہرے پر دکھ کی گہری پرچھائی تھی اور ایک پر خوشی کی۔
بچی کو گود میں لیے اس کو پھر اپنے فیصلے کے درست ہونے کا یقین ہوا ۔ اگر وہ اس وقت یہ قدم نہیں اٹھاتا تو وہ بلا شبہ اپنی باقی زندگی ایک ایسی سولی پر ٹنگے ہوئے کاٹتا، جہاں ملال کا خنجر اسے جیتے جی دن میں کئی دفعہ مارتا اور بے غیرتی کا شدید احساس اس کی سانسیں روکے رکھتا۔ اب وہ بے شک اس کے اپنے گھر میں نہیں جا رہی تھی لیکن کم از کم اسے اتنی تسلی تو تھی کہ وہ قابل اعتبار ، ذمہ دار اور مشفق ہاتھوں میں تھی ۔ اس کا دوست بچی کے لیے ضرورت کی سب چیزیں لے کر آیا تھا ۔ نئے کپڑوں اور موزوں سے لے کر کار سیٹ تک ۔ ساری کاغذی کارروائیاں مکمل ہونے میں دو گھنٹے لگ گئے ۔ چوں کہ اس نے پورا process پہلے سے شروع کر رکھا تھا اسی لیے ساری معلومات خفیہ تھیں جس کے مطابق بچی کے اصل لواحقین اور گود لینے والے ایک دوسرے کے لیے نامعلوم رہتے۔
وہ اسی طرح کا کام چاہتا تھا ۔ نامعلوم افراد کی بچی گود لینے کا مقصد ہی یہی تھا ۔ جب تک اس کا دوست ساری کاغذی مکمل کرتا رہا، بچی اس کی گود میں ہی سوئی رہی ۔ اسے لگا جیسے وہ اس کا لمس پہچان گئی تھی ۔ وہ اس کے خوب صورت اور معصوم چہرے سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا ۔ وہ بے شک ایک سنگین غلطی کا نتیجہ تھی لیکن وہ بلا شبہ بے قصور بھی تھی ۔ وہ دونوں بچی کے ساتھ وہاں سے نکلے اور سیدھا ائیرپورٹ گیے جہاں سے اس کے دوست نے فورا ہی بچی کے ساتھ واپسی کی فلائٹ لے لی تھی ۔ وہ اس وقت تک وہیں کھڑا رہا جب تک اس کے دوست کا جہاز ٹیک آف نہیں کر گیا ۔ پھر اس نے بکنگ کاؤنٹر پر جا کر اپنی بھی واپسی کی بکنگ کروا لی ۔ اس کے دل اور دماغ میں اس وقت احساسات کی طغیانی سی تھی جن میں سب سے زور آور احساس، ایک عظیم جدوجہد میں سر خروئی کا تھا ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!