جادو کا آئینہ احمد عدنان طارق سین نمبر ١ ”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تم ہر وقت غصّے میں رہ کر کیوں ماتھے پر تیوریاں چڑھائے رکھتے ہو؟” معاذ کی امّی بولیں۔ معاذ نے ان
ہوا اور بادل سارہ قیوم ایک تھا بادل! نرم نرم، جیسے کہ روئی کا کوئی گالا، اس میں بہت سا پانی بھرا ہواتھا، اتنا کہ بادل بے چارے سے چلا نہ جاتا تھا۔ وہ چپ
گو کہ امریکا آنے سے پہلے ہی ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس حسین دیار کے دلکش باشندے ہمیں ہمیشہ غیر ہی سمجھیں گے، لیکن اپنی قابلِ رحم اور انتہائی دکھی ‘آسمان سے گرے
نگار خانہ میں زندگی آگے بڑھتی رہی کہ اچانک ہو کا عالم گزرا۔ کرب ہی ایسا تھا گویا ظالم نے کلیجوں پر ہاتھ ڈالا۔ اتنا پانی تو ساون بھادوں کے سیلاب میں نہ تھا جتنا
مگر عیلی کو اتنے ٹھاٹ باٹ سے جاتے دیکھ آج بھی ایک آنکھ نے احساسِ کمتری میں نچڑے اشک بہائے تھے۔ وہ معصوم آنکھ رِمی کی تھی جسے دیکھ اس کے ابا پریشان ہوئے تھے۔
چھم چھم بادل برس رہا ہے۔ ٹین کی چھتوں پر ساز بُنتا، کہیں درختوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا، پھولوں کے رنگ نکھارتا، دورکہیں پربتوں پر چنگھاڑتا، آج تو چھاجوں چھاج مینہ برس رہا ہے۔مینہ جو