آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

امامہ کے لئے کیرولین کی فون کال ایک سرپرائز تھی۔ اس نے بڑے خوشگوار انداز میں اس سے بات چیت کرتے ہوئے امامہ کو اس اجازت کے بارے میں بتایا تھا جو اس نے ایرک کو دی تھی اور امامہ حیران رہ گئی تھی۔ اسے ایرک اور جبریل کے درمیان اس حوالے سے ہونے والی گفتگو کا علم نہ تھا۔
’’ممی! مجھے یقین تھا وہ نہ اپنی ممی سے بات کرے گا نہ ہی وہ اسے اجازت دیں گی۔‘‘ جبریل نے ماں کے استفسار پر اسے بتایا تھا۔
امامہ نے اسے کیرولین کی کال کے بارے میں مطلع کرتے ہوئے بتایا تھا۔
’’لیکن اب اس کی ممی نے مجھے کال کرکے کہا ہے کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے تو اب کیا کریں؟‘‘ امامہ نے کہا۔
’’کیا کرنا ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑا تھا۔ ’’قرآن پاک سکھاؤں گا اسے اب۔‘‘ جبریل نے ماں سے کہا تھا۔
اسے اپنے جواب پر امامہ کے چہرے پر خوشی نظر نہیں آئی۔
’’آپ کو پریشانی کس بات کی ہے۔ پہلے یہ تھی کہ اس کی فیملی کو اعتراض نہ ہو لیکن اب تو اس کی فیملی نے اجازت دے دی ہے پھر اب تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
جبریل نے جیسے ماں کو کریدنے کی کوشش کی تھی۔ امامہ اس سے کہہ نہیں سکی کہ اسے سارا مسئلہ عنایہ کی وجہ سے ہورہا تھا۔ قرآن پاک سیکھنے کی یہ خواہش اگر ایرک کی اس خواہش کے بغیر سامنے آتی تب وہ کچھ اور طرح کے تامل اور جھجک کا شکار ہوتی لیکن خوشی خوشی ایرک کو اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر قرآن پاک سیکھنے دیتی۔
’’مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے… جوبھی ہوتا ہے، اللہ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے اور ہم کچھ بھی بدلنے پر قادر نہیں ہیں۔ ٹھیک ہے ایرک تم سے قرآن پاک سیکھنا چاہتا ہے تو تم سکھاؤ اسے۔‘‘ امامہ نے بالآخر جیسے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔
٭…٭…٭





گیارہ سال کی عمر میں قرآن پاک سے ایرک کا وہ پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔ اس سے پہلے وہ صرف اس کتاب کا نام جانتا تھا۔ جنرل نالج کے حصے کے طور پر…
وہ سالار اور امامہ کے گھر جاکر مسلمانوں کے قریب ہوا تھا اور جبریل کی تلاوت سن سن کر وہ قرآن پاک سے متاثر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ وہ زبان اور وہ تلاوت اسے جیسے کسیfantasy میں لے جاتی تھی۔ وہ لفظ ’’ہیبت‘‘ سے آشنا نہیں تھا… ہوتا تو شاید یہی استعمال کرتا اس کے لئے… جبریل کی آواز دلوں کو پگھلا دینے والی ہوتی تھی، وہ خوش الحان نہیں تھا۔ وہ بلا کا خوش الحان تھا اور گیارہ سال کا وہ بچہ اس زبان اور اس کے مفہوم سے واقف ہوئے بغیر بھی صرف اس کی آواز کے سحر میں گرفتار تھا۔
جس دن اس نے جبریل سے قرآنی قاعدہ کا پہلا سبق لیا تھا، اس رات اس نے آن لائن قرآن پاک کا پورا انگلش ترجمہ پڑھ لیاتھا۔ وہ کتابیں پڑھنے کا شوقین اور عادی تھا اور قرآن پاک کو اس نے ایک کتاب ہی کی طرح پڑھا تھا۔ بہت ساری چیزوں کو سمجھتے ہوئے… بہت ساری چیزوں کو نہ سمجھتے ہوئے۔ بہت ساری باتوں سے متاثر ہوتے ہوئے… بہت سارے احکامات سے الجھتے ہوئے… بہت سارے جملوں کو ذہن نشین کرتے ہوئے… بہت سارے واقعات کو اپنی کتاب بائبل سے منسلک کرتے ہوئے…
اس نے بائبل بہت اچھی طرح پڑھی تھی اور اس نے قرآن پاک کو بھی اسی لگن سے پڑھا تھا۔ اس کی ماں کی یہ رائے ٹھیک تھی کہ ایرک کو جب ایک چیز کا شوق ہوجاتا تھا تو پھر وہ شوق نہیں جنون بن جاتا تھا، لیکن اس کی ماں کا یہ خیال بالکل غلط تھا کہ وہ ایک دو ہفتوں کے بعد خود ہی اپنے اس شوق سے بے زار ہو جانے والا تھا کیوں کہ وہ متلون مزاج تھا۔
جبریل کو حیرت نہیں ہوئی تھی جب دن ایرک نے اسے قرآنی قاعدہ کا سبق بالکل ٹھیک ٹھیک سنایا تھا۔ وہ بے حد ذہین تھا اور وہ اتنے سالوں سے اس سے واقف ہونے کے بعد… یہ تو جانتا تھا کہ ایرک کوئی بھی چیز آسانی سے بھلاتا نہیں تھا، لیکن وہ یہ جان کر کچھ دیر خاموش ضرور ہوگیا تھا کہ ایرک نے ایک رات میں بیٹھ کر قرآن پاک کا پورا ترجمہ پڑھ لیا تھا۔
’’اس کا فائدہ کیا ہوا؟‘‘ جبریل نے اس سے پوچھا تھا۔
’’کس چیز کا…؟ قرآن پاک پڑھنے کا؟‘‘ ایرک نے اس کے سوال کی وضاحت چاہی۔
’’ہاں!‘‘ جبریل نے جواب دیا۔
ایرک کو کوئی جواب نہیں سوجھا، اس کا خیال تھا جبریل اس سے متاثر ہوگا۔ وہ متاثر نہیںہوا تھا، الٹا اس سے سوال کررہا تھا۔
’’فائدہ تو نہیں سوچا میں نے، میں نے تو بس تجسس میں پڑھا ہے قرآن پاک۔‘‘ ایرک نے کندھے اچکا کر پوچھا۔
’’تو اب تمہاری کیا رائے ہے قرآن پاک کے بارے میں…؟ اب بھی سیکھنا چاہتے ہو؟‘‘ جبریل نے اس سے پوچھا۔
’’ہاں… اب اور بھی زیادہ۔‘‘ ایرک نے کہا۔ ’’مجھے یہ بے حد انٹرسٹنگ لگی ہے۔‘‘
جبریل اس کی بات پر مسکرایا تھا۔ وہ ایسے بات کررہا تھا جیسے انسائیکلوپیڈیا کے بارے میں بات کررہا ہو یا کسی دلچسپ کتاب کے بارے میں جو وہ مکمل پڑھے بغیر نہیں رہ سکا ہو۔
’’مقدس کتابوں کو صرف پڑھ لینا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔‘‘ جبریل نے اس سے کہا تھا۔ ’’اسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘
ایرک اس کو بغور دیکھتے ہوئے اس کی بات سن رہا تھا۔
’’یہ میں جانتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا، یہ وہی بات تھی جو وہ اپنے ماں باپ سے بھی بہت بار سن چکا تھا۔
اس دن جبریل نے اسے دوسرا سبق قرآنی قاعدہ کا نہیں دیا تھا۔ اس نے اسے دوسرا سبق اسے ایک ’’اچھا انسان‘‘ بننے کے حوالے سے دیا تھا۔
’’کوئی بھی ایسی چیز جس کا تعلق اللہ سے ہے اور جو ہم سیکھتے ہیں تو پھر اس دن ہمارے اندر دوسروں کے لئے کچھ زیادہ بہتری آنی چاہیے تاکہ یہ نظر آئے کہ ہم کوئی ’’خاص چیز‘‘ سیکھ رہے ہیں۔‘‘
جبریل نے اسے سمجھایا تھا۔ وہ تبلیغ کرنا نہیں چاہتا تھا اور یہ مشکل کام بھی تھا کہ اپنے مذہب کا ڈنکا بجائے بغیر کسی کو یہ سمجھا سکے کہ اسلام آخری مذہب کیوں تھا… کامل ترین کیوں تھا۔
’’وہ سارے سبجیکٹ جو ہم اسکول میں پڑھتے ہیں اور جو ہم وہاں سیکھتے ہیں، وہ ہماری پرسنالٹی پر اثر انداز نہیں ہوتے وہ صرف تب ہمارے کام آتے ہیں جب ہمیں ایگزام دینا ہو… جاب کرنی ہو… یا بزنس کرنا ہو… کتابیں ہمیں باعلم بناتی ہیں… باعمل نہیں… باعمل ہمیں صرف وہ کتاب بناسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف باعمل کرنے کے لئے اتاری ہے۔‘‘
ایرک اس کی بات بڑی توجہ سے سن رہا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے اس سے پہلے کوئی چیز سمجھا کرتا تھا۔
’’بابا نے مجھ سے کہا تھا اگر ہم اچھے انسان نہ بن سکیں اور اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے تکلیف کا باعث ہوں تو عبادت کرنے اور مذہب کے بارے میں پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ مذہب اور مذہبی کتابیں اللہ تعالیٰ نے صرف ایک مقصد کے لئے اتاری ہیں کہ ہم اچھے انسان بن کر رہیں… ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھیں۔ خاص طور پر ان کا جو ہماری ذمہ داری ہیں… جیسے تمہارے چھوٹے بہن، بھائی اور تمہاری ممی تمہاری ذمہ داری ہیں… تمہارا اپنا جسم اور ذہن تمہاری اپنی ذمہ داری ہے۔‘‘
جبریل بڑی ذہانت سے گفتگو کو اس موضوع کی طرف موڑ رہا تھا جس پر وہ ایرک سے بات کرنا چاہتا تھا اور ایرک یہ بات سمجھ رہا تھا۔ وہ چھوٹا تھا، بے وقوف نہیں تھا۔ وہ کہیں اور بیٹھا ہوتا تو کبھی اس موضوع پر کسی کو بات کرنے کی اجازت نہ دیتا۔ وہ ان ایشوز کے حوالے سے اتنا ہی حساس تھا، لیکن وہ اس گھر میں آکر کسی سے بھی کچھ بھی سن لیتا تھا۔
’’تو اب تم نے دیکھنا ہے کہ جس دن تم آقرن پاک پڑھ کر جاتے ہو… اس دن تمہارے اندر کیا تبدیلی آتی ہے… اس دن تم اپنی فیملی کے لئے اور دوسروں کے لئے کیا اچھا کام کرتے ہو۔‘‘ جبریل نے جیسے اسے چیلنج دیا تھا۔
’’میں کوشش کروں گا۔‘‘ ایرک نے وہ چیلنج قبول کرلیا تھا۔ پھر اس نے جیسے اس کی مدد مانگی۔ ’’تو آج میں گھر میں جا کر کیا کروں؟‘‘
’’تم آج ایک ایسا کام مت کرنا جس سے تمہیں پتا ہو کہ تمہاری ممی اپ سیٹ ہوتی ہیں۔‘‘
جبریل نے اس سے کہا تھا۔ ایرک کچھ خجل سا ہوگیا۔ اسے اندازہ نہیں تھا جبریل اتنے بے دھڑک انداز میں اس کے بارے میں ایسی بات کہے گا۔
’’تم مجھے عبداللہ کہا کرو۔‘‘ ایرک نے جان بوجھ کر بات کا موضوع بدلنے کے لئے اسے ٹوکا۔
’’عبداللہ تو اللہ کا بندہ ہوتا ہے… سب سے Kind سب سے زیادہ خیال رکھنے والا اور احساس کرنے والا… کسی کو تکلیف نہ دینے والا، میں تمہیں عبداللہ تب کہنا شروع کروں گا۔ جب تم سب سے پہلے اپنی ممی کو تکلیف دینا بند کردوگے۔‘‘
جبریل نے اس کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔ ایرک جیسے کچھ اور خجل ہوا۔ ایک لمحے کے لئے اسے لگا جیسے جبریل اس سے جو کچھ کہہ رہا تھا، وہ اس کی ممی کے کہنے پر کہہ رہا تھا، لیکن وہ اس سے بحث میں نہیں الجھا تھا اس نے خاموشی سے اس کی بات سن لی تھی۔
اس دن ایرک گھر جاکر پہلی بار رالف سے خوش دلی سے ملا تھا… کیرولین اور وہ دونوں سٹنگ ایریا میں بیٹھے فٹ بال میچ دیکھ رہے ہیں۔ رالف اور کیرولین کو ایک لمحے کے لئے لگا، شاید ایرک سے غلطی ہوئی تھی یا پھر انہیں وہم ہورہا تھا۔ اس نے پہلی بار رالف سے خوش مزاجی کا مظاہرہ کیا تھا اور کیرولین اس بات پر شروع شروع میں اسے ڈھیروں بار ڈانٹ اور سمجھا چکی تھی۔ زچ ہوچکی تھی اور پھر اس نے ایرک کو کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ایرک اور رالف کے درمیان کبھی کوئی تکرار نہیں ہوئی تھی، لیکن رالف یہ جانتا تھا کہ وہ اسے پسند نہیں کرتا اور اس نے بھی ایرک کے ساتھ فصلے کم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
اس کا خیال تھا، ان دونوں کے درمیان فاصلہ رہنا ہی بہتر تھا تاکہ لحاظ ختم نہ ہو، لیکن وہ ذاتی حیثیت میں ایک اچھا سلجھا ہوا آدمی تھا اور وہ ایرک کے حوالے سے کیرولین کی پریشانی کو بھی سمجھتا تھا۔
ایرک رکے بغیر وہاں سے چلا گیا تھا۔ رالف اور کیرولین نے ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھا۔
’’اس کو کیا ہوا؟‘‘ رالف نے کچھ خوش گوار حیرت کے ساتھ کہا تھا۔
’’پتا نہیں۔‘‘ کیرولین نے کندھے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
وہ پہلی تبدیلی نہیں تھی جو ایرک میں آئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ مزید تبدیل ہوتا گیا تھا۔ ویسا ہی جیسا وہ پہلے ہوا کرتا تھا۔ قرآن پاک کا سبق ہفتے میں دو دن کے بجائے وہ اب ہر روز لینے جایا کرتا تھا… اگر کبھی جبریل یہ کام نہ کرسکتا تو حمین یا امامہ اسے سبق پڑھا دیتے، لیکن ایرک کو یہ اعتراف کرنے میں عار نہیں تھا کہ جیسے جبریل اسے پڑھاتا تھا، ویسے اور کوئی نہیں پڑھا سکتا تھا۔ اس کی آواز میں تاثیر تھی، ایرک اس سے پہلے بھی متاثر تھا، لیکن اس سے قرآن پاک پڑھنے کے دوران وہ اس سے مزید قریب ہوگیا تھا۔
اس گھر میں ایرک کی جڑیں اب زیادہ گہری اور مضبوط ہوگئی تھیں۔ امامہ کی تمام تر احتیاط کے باوجود…
٭…٭…٭
جبریل لوگوں کو نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں متاثر کرتا تھا۔ تیرہ سال کی عمر میں اس کا ٹھہراؤ اس کی عمر کے عام بچوں کے برعکس تھا۔ سالار کی بیماری نے امامہ کے ساتھ ساتھ دس سال کی عمر میں اسے بھی بدل دیا تھا۔ وہ ضرورت سے زیادہ حساس اور اپنی فیملی کے بارے میں زیادہ ذمہ دار ہوگیا تھا یوں جیسے وہ اسی کی ذمہ داری تھی اور سالار اور امامہ یقینا خوش قسمت تھے کہ ان کی سب سے بڑی اولاد میں ایسا احساس ذمہ داری تھا۔
اس نے امریکا میں سالار کی سرجری اور اس کے بعد وہاں امامہ کے بھی وہیں قیام کے دوران اپنے تینوں چھوٹے بہن، بھائیوں کی پروا کسی باپ ہی کی طرح کی تھی۔
سکندر عثمان اور طیبہ، سالار کے بچوں کی تربیت سے پہلے بھی متاثر تھے، لیکن ان کی غیر موجودگی میں جبریل نے جس طرح ان کے گھر پر اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھا تھا، وہ ان کو مزید متاثر کرگیا تھا۔ امامہ نے اپنے بچوں سے کہا تھا کہ یہ ہمارا گھر نہیں ہے، ہم یہاں مہمان ہیں اور مہمان کبھی میزبان کو شکایت کا موقع نہیں دیتے اور ان چاروں نے ایسا ہی کیا تھا۔ طیبہ اور سکندر کو کبھی ان چاروں بچوں کے حوالے سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا نہ ہی انہیں ان کے حوالے سے کسی اضافہ ذمہ داری کا احساس ہوا تھا۔
وہ تینوں اپنا ہر کام خود ہی کرلینے کی کوشش کرتے تھے اور رئیسہ کی ذمہ داری ان تینوں نے آپس میں بانٹی ہوئی تھی کیوں کہ ان چاروں میں سب سے چھوٹی اور کسی حد تک اپنے کاموں کے لئے، وہی دوسروں پر انحصار کرتی تھی۔
اپنے بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں اس طرح اپنے سر لینے نے جبریل کو بہت بدلا تھا۔ ایک دس سالہ بچہ کئی مہینے اپنا کھیل کود، اپنی سرگرمیاں بھلا بیٹھا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب جبریل ذہنی طور پر بھی بدلتا چلا گیا تھا۔
تیرہ سال کی عمر میں ہائی اسکول سے ڈس ٹنکشن کے ساتھ پاس کرکے یونیورسٹی جانے والا وہ اپنے اسکول کا پہلا اسٹوڈنٹ تھا اور وہ یونیورسٹی صرف ڈس ٹنکشن کے ساتھ نہیں پہنچا تھا، وہ وہاں بل گیٹس فاؤنڈیشن کی ایک اسکالر شپ پر پہنچا تھا۔ وہ، وہ پہلی سیڑھی تھی جو میڈیسن کی طرف جاتے ہوئے اس نے چڑھی تھی سالار سکندر کے خاندان کا پہلا پرندہ یونیورسٹی پہنچ چکا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہم — کوثر ناز

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!