یہ لاہور کے جدیدپوش علاقے کا پچھلا حصہ ہے جہاں کہیں کہیں خودرو جھاڑیوں اور جنگلی گھاس کی بہتات ہے اور اسی حصے کے بیچوں بیچ قطار در قطار جھونپڑیاں ہیں۔ میلی گرد سے اٹی،
آئیے! میں آپ کو اس پری پیکر سے متعارف کرواتا ہوں۔ میری اجلی صبح کا آغاز اس نازنین کے دیدار سے ہوتا ہے۔ سورج کی مندی آنکھوں اور پرندوں کی انگڑائیوں کے دوران منہ اندھیرے
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘وہ درخت کے موٹے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ ایک دم سے چونک کر اٹھ بیٹھا۔گھبرا کر چاروں سمت نظریں دوڑا ئیں ۔ ’’آواز کہاں سے آئی؟کون بولا؟‘‘وہ
ہوا کی سرسراہٹ اور وحشت زدہ سناٹے کو چیرتے ہوئے گھوڑے کے قدموں کی ٹاپ دور دور تک گونج رہی تھی۔ وہ ہر شے بے نیاز اڑتے بالوں کو کاندھے کے ایک طرف ڈالے سرپٹ
”نل میں پانی نہیں آ رہا۔ کیا مصیبت ہے؟ اب منہ کیسے دھوؤں؟” ریحان نے سنک پر کھڑے ہو کر شور مچایا تھا۔چہرے پر صابن ملے وہ بے زار سا کھڑا تھا جب شہلا بالٹی
سات بج کر پچپن منٹپر اس کی آنکھ کھل گئی ۔ سستی سے انگڑائی لیتی وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔ بالوں کو پونی ٹیل میں سمیٹتی وہ نیچے آئی تو وہی مانوس سا منظر تھا۔چھوٹا
”پیارے بچے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو اسے اللہ ضرور لائے گا۔اللہ بڑا باریک بین اور خبردار
”ناظرین! سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ نانا جان کی جائیداد میں سے کس کو کیا کیا ملے گا، یہ فیصلہ سب سے پہلے سیفی نیوز کے ذریعے آپ تک پہنچے گا۔” سیف الرحمن سیفی کی