الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)
جانِ جہاں! یہ خط تمہیں حسنِ جہاں نہیں لکھ رہی۔ قلبِ مومن کی ماں لکھ رہی ہے۔ آج میں نے قلبِ مومن کے وہ خط پڑھے جو اُس نے اللہ کے نام لکھے ہیں۔۔۔ تمہیں
جانِ جہاں! یہ خط تمہیں حسنِ جہاں نہیں لکھ رہی۔ قلبِ مومن کی ماں لکھ رہی ہے۔ آج میں نے قلبِ مومن کے وہ خط پڑھے جو اُس نے اللہ کے نام لکھے ہیں۔۔۔ تمہیں
پیارے بابا جان السلام و علیکم میںجانتی ہوں یہ خط دیکھ کر آپ حیران ہوجائیں گے لیکن شاید آپ کی خوشی آپ کی حیرت سے زیادہ ہوگی۔ آپ کو خط لکھنے کا خیال روز آتا
رات کو کنول اپنے کمرے میں بیٹھی ایک چینل پر اپنے سابقہ شوہر کا انٹرویو دیکھ رہی تھی۔۔عابد منہ بناتے ہوئے رپورٹر کو انٹرویو دے رہا تھا۔ ” جی بہت بُری عورت تھی وہ۔میں نے
پانچ سال بعد ٭…٭…٭ آج شہر کی ایک بڑی پارٹی میں جانا تھا اس لیے کنول دل لگا کر تیار ہوئی۔لپ اسٹک کے آخری ٹچ پر اس نے اوپر والے ہونٹ سے نیچے والے ہونٹ
میرے پیارے اللہ السلام و علیکم آپ کیسے ہیں؟ میں بھی ٹھیک ہوں۔ آپ کو میں یاد ہوں نا؟ میں قلبِ مومن ہوں۔ آپ کو خط لکھتا تھا۔ پھر خط لکھنا بند کردیا۔ لیکن آپ
میرے اُستاد محترم! اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ سے مل کر آیا ہوں اور ابھی تک سحرزدہ پھر رہا ہوں۔ پیرس فیشن ویک میں شرکت کے لیے پیرس آیا ہوا ہوں اور
کنول کوریڈور میں کھڑی ڈاکٹر سے بات کررہی تھی۔اس کے باپ کا آپریشن ہوچکا تھا۔ ڈاکٹرز اس کے ہاتھ میں آپریشن کابل تھماتے ہوئے بہت سپاٹ سے انداز میں بولا۔ ”ہم نہیں چاہتے تھے لیکن
میرے پیارے سلطان! اتنے مہینوں بعد میرا خط دیکھ کر تم حیران ہو گئے نا؟ میں جانتی تھی۔ تم کو لگا ہو گا میں تمہیں بھول گئی۔ دیکھ لو نہیں بھولی۔ ہاں دُنیا کو بھلا
Alif Kitab Publications Dismiss