چھوٹے چھوٹے کنکر پاؤں میں چبھ کر جب انہیں زخمی کرتے تو اس کی روح کلبلا اٹھتی۔ آسمان پر چمکتا سورج قہر برساتا تو اسے یاد آتا کہ کبھی کوئی مہربان سائباں اس کے لیے
نسرین نے کلائی پر بندھی چھوٹے ڈائل والی گھڑی میں گھومتی سوئیوں کو دیکھا اور نائیلون کی چارپائی پر سوئے ناصر کو کندھے سے پکڑ کر ہلانے لگی۔ کچھ دیر ہلانے پر بھی حرکت نہ
میرا دل ہوا کی سرسراہٹ کے ساتھ بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ ایسا زندگی کے پچیس سالوں میں پہلی بار ہوا تھا کہ میںیوں کسی مرد سے خوف زدہ تھی۔ میری لرزتی ٹانگیں کمزور
مختار شیرازی دراز قد وجیہہ انسان اور سندھ کے ایک وڈیرے خاندان کا وارث تھا۔اس کے جاہ و جلال کی وجہ سے پورا گاوؑں اس کے دائرہ اختیار میں تھا۔ اپنے خاندان کا سب سے
سورج کی سنہری کرنوں نے چارسو اپنا رنگ بکھیرا تویہ ساتھ ہی ایک نئے دن کا آغاز تھا، زندگی کا پہیہ ایک بار پھر اپنے مخصوص ڈگر پر رواں ہو چلا تھا بس فرق صرف