مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)
اُس نے آنکھیں کھولیں تو پہلا خیال دماغ میں یہی آیا تھا کہ قیامت سے گزر کر وہ کسی اندھیری قبر میں جاپہنچی تھی۔ قیامت کے بعد ایک اور قیامت شاید وہ یوم حشر تھا۔
اُس نے آنکھیں کھولیں تو پہلا خیال دماغ میں یہی آیا تھا کہ قیامت سے گزر کر وہ کسی اندھیری قبر میں جاپہنچی تھی۔ قیامت کے بعد ایک اور قیامت شاید وہ یوم حشر تھا۔
گھنٹہ بھر کوشش کرنے کے بعد بھی میں بمشکل چند لائنیں کاغذ پر گھسیٹ پایا تھا۔ جھنجھلاہٹ کے عالم میں قلم کاغذ پر پٹختے ہوئے میں نے گہرا سانس لیا۔ جولائی کا مہینہ اختتام پذیر
ہاں ہر چہرہ کسی کا محبوب ہوتا ہے یہ بات آپ نے ضرور سن رکھی ہوگی۔ سب کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ کیا یہ واقعی سچ
منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود
شہباز کبیر کی اولاد میں وہ تیسرے نمبر پر تھی۔ بھولی بھالی۔ من موہنی صورت، بلا کی سادہ مزاج اور حد درجے ذہین۔ جس عمر میں بچے کھیل کھلونوں کی جانب رغبت رکھتے ہیں۔ وہ
اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب زندگی بہت خوبصورت تھی۔ اور زندگی تو کبھی بھی بدصورت نہیں ہوتی یہ تو ہمارے ہی محسوسات ہوتے ہیں جو اس کے حسن کا معیار قائم کرتے
کھڑکیاں دروازے بند کرلینے سے اگر زندگی کے ہارے ہوئے لمحوں کا آسیب اپنی ہیبت ناکی سمیت کہیں فنا ہوجاتا تو پھر بھلا دنیا میں دکھ ہی کیا رہ جاتا مگر مصیبت تو یہی ہے
فلک جب سے اسٹور سے آیا تھا ایک ہی اینگل میں بیٹھا مسلسل سوچوں میں گم تھا۔ سارہ کافی دیر تک دیکھتی رہی، لیکن پھر مجبور ہوکے اس کے پاس چلی آئی۔ ”کیا ہوا فلک،
Alif Kitab Publications Dismiss