ربیع الاول کا مہینہ چل رہا تھا اور روز کہیں نہ کہیں محفلِ میلاد منعقد ہورہی تھی۔ کہیں صرف مرد حضرات کی محفل تو کہیں خواتین کی۔ شہر کی فضا درود و سلام سے معطر
”کاش میں انسان ہوتا۔۔۔ کاش۔۔۔ اگر میں انسان ہوتا تو آج اپنے بیٹے کے آگے یوں ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے۔ اُس کے آگے رحم کی بھیگ نہ مانگنی پڑتی۔ نہ ہی اُس کے آگے یوں
کہتے ہیں دیوار اور دروازے کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ دیوار نہ ہو تو پھر دروازہ بھلا کس کام کا؟ جس طرح دیوار دیدار میں رکاوٹ کا دوسرا نام ہے اسی طرح دروازہ
”موٹا آلو گول گول ۔۔۔۔ کر کے کھا رول رول۔۔۔” اعتزاز جیسے ہی ناشتے کی میز پر آیاربیعہ اور فیض نے لہک لہک کر گنگنانا شروع کر دیااور سلام کے انداز میں سر کو ایک
حسبِ معمول کلیسا بڑی دل جمعی سے کام چوری میں مصروف تھی، لیکن ہائی وے پر تیزی سے گزرتی گاڑیوں میں بیٹھے مسافروں کے پاس وہ ساعت نہ تھی جو کلیسا کے احتساب کا سبب
”تو یوحنّاجوزف! یہ ہی نام ہے نا تمہارا؟” دو دن بعد انہوں نے پہلا کیس لینے کے لئے یوحنّاجوزف کو بلالیا تھا۔ وہ پانچویں کلاس میں تھا اور چیونگم منہ میں ڈالے اس وقت ایک