”او ماریہ ۔۔۔او ماریہ ۔ ” خاقان احسن گنگنایا تو وہ بے اختیار مسکرا دی۔ ”او ماریہ ۔۔۔او ماریہ ۔۔۔شادی کرو گی مجھ سے ، کیسے کہوں یہ تجھ سے ۔۔۔یہ بتا ۔۔۔او ماریہ ۔۔اوماریہ۔”
جانتے ہیں اُس نے میری لاش کے ساتھ کیا کیا…؟ وہ پھر سے میرے گھٹنوں پر بیٹھ گیا تھا…پر اس بار مجھے بالکل درد نہ ہوا…میں تو دور کھڑی ہوں اپنے جسم سے…بہت دور…درد کا
داستانِ حیات علی فاروق (داستانِ شبِ غم اور قصہ روزِ درد، اُس مظلوم مخلوق کا جسے ”طالبِ علم” کہتے ہیں……) اپنی پیدائش کے چند لمحات بعد ہی وہ بے چارہ اس بات کا ماتم کر
” او نو…. اور میں سمجھتا رہا کہ تم ایک فراڈ ہو۔کیا تمہیں عجیب نہیں لگتا کہ کہاں تم اور کہاں تمہارا بیٹا۔“ آدم نے سوال کیا۔ ” تم ایک سوال ہی کیوں گھما پھرا
بال روم کے ایک سرے پر ٹیبل سجی تھی جس پر وائن گلاسز بھرے رکھے تھے۔ فرحان جو مصری بادشاہ فرعون کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ ہر گلاس میں ایک ایک ٹیبلٹ ڈالتا جارہا تھا۔
چکلے ساحر لدھیانوی یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں یہ پر پیچ گلیاں
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں ۔ احمد فراز اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیںجس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیںڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا