عام سی عورت — مریم جہانگیر
شام کا پرندہ روشنی کو قطرہ قطرہ اپنے اندر جذب کر کے دن بھر کی تھکن اتارنا چاہتاتھا۔ اُسے خوابوں کی سر زمین پہ قدم رکھنے کی جلدی تھی۔فلک پہ ہلکی ہلکی سی شفق اپنی
شام کا پرندہ روشنی کو قطرہ قطرہ اپنے اندر جذب کر کے دن بھر کی تھکن اتارنا چاہتاتھا۔ اُسے خوابوں کی سر زمین پہ قدم رکھنے کی جلدی تھی۔فلک پہ ہلکی ہلکی سی شفق اپنی
سال بھر کی موتیا صحن میں چلنا سیکھ رہی تھی اور گامو اور اللہ وسائی بیٹھے اسے دیکھتے ہوئے جیسے اس پر قربان جارہے تھے۔ ”دیکھ کیسے چلتی ہے میری موتیا اللہ وسائی! جیسے ہوا
”تم اُداس کیوں ہو؟” سینما سے واپس جاتے ہوئے گاڑی میں اقصیٰ نے مومنہ سے پوچھا تھا۔ ”تمہارے لیے۔ ”اُس نے بات بدلنے کی کوشش کی اور اقصیٰ جیسے اُس کے جھانسے میں آگئی۔ اُس
”مجھ سے اتنی نفرت ہوگئی ہے مومن کو اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔” حسنِ جہاں نے سوئے ہوئے قلبِ مومن کو دیکھتے ہوئے جیسے بڑبڑاتے ہوئے وہ خط سلطان کی طرف بڑھایا تھا۔ مومن
شہریار کنول کی ایک پرانی ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں وہ بیت شرارتی سے انداز میں باتیں کررہی تھی۔وہ حسب معمو ل اپنے بیڈ پر بیٹھی ویڈیو بنا رہی تھی اور موبائل کیمرے میں
”مردوں کی طرف سے کتنا سپورٹ ملی؟” سمیع نے پوچھا۔ ”میں کہہ سکتی ہوں میرے ماں باپ نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔ دوستوں نے خاصی طور پر ایک دوست ریحان جو پروگرام دیکھ رہا ہو
طہٰ باہر سے قلبِ مومن کو ساتھ لے گیا تو۔۔۔ وہ لے کر چلا گیا تو وہ کیا کرے گی۔ وہ یک دم روتی ہوئی حواس باختہ قلبِ مومن کا نام پکارتی باہر دوڑی تھی
وہ کہتی گئی تھی۔ سلطان پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہا تھا جب وہ خاموش ہوئی۔ تو سلطان نے کہا۔ ”کس شخص کی وجہ سے؟” مومنہ نے اسکرپٹ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ ”سلطان کی
Alif Kitab Publications Dismiss