الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۵
مرد کے چہرے پر حیرت نمودار ہوئی۔ حیران ہوکر کہا۔ ‘‘آٹوگراف؟’’ کرن نے مسکرا کر کہا ۔ ‘‘جی آٹوگراف۔ نہیں دیں گے کیا؟’’ مرد مسکرایا۔ کاغذ اور قلم تھاما اور اس پر اپنے دستخط کردیئے۔
مرد کے چہرے پر حیرت نمودار ہوئی۔ حیران ہوکر کہا۔ ‘‘آٹوگراف؟’’ کرن نے مسکرا کر کہا ۔ ‘‘جی آٹوگراف۔ نہیں دیں گے کیا؟’’ مرد مسکرایا۔ کاغذ اور قلم تھاما اور اس پر اپنے دستخط کردیئے۔
زلیخا تو دن رات سوچ و فکر میں گم رہنے لگی تھی لیکن نانی تھیں کہ ہر وقت حسن کو خوش کرنے کے جتن کرتی تھیں۔ کبھی منے سے کہتیں کہ حسن کو کرکٹ کھلانے
زلیخا کی فکر سے نجات پائی تو حسن کو بچھڑی ہوئی محبوبہ کی یاد آئی۔ ہر دم اسی کا خیال تھا، فراق باعثِ رنج و ملال تھا۔ آہِ دردناک اور ٹھنڈی سانسیں بھرتا تھا۔ دن
‘‘ہاں بیٹا تو لے جا اسے اور تو کسی کو اس گھر میں پرواہ نہیں۔ اس کی ماں کی تو صرف ایک اولاد ہے۔ بّنا ۔ زلیخا اور منے کی تو میں ہی ماں ہوں۔
روشنی کا کپکپاتا وجود گھٹنوں کے بل زمین پر آ گرا اس کا وجود تو یہیں تھا، لیکن اس کی سوچیں ماضی میں کہیں کھو گئی تھیں۔ وہ صدمے کی سی کیفیت میں اظفر کے
حسن نے کہا: ‘‘اے زلیخا میں گھر سے بھاگا جاتا ہوں۔ بجز اس کے کوئی راستہ نہیں پاتا ہوں۔’’ زلیخا نے سرگوشی میں ڈانٹ کر کہا: ‘‘پاگل ہو گئے ہو؟ نیچے اترو۔ بھاگ کر کہاں
اگلے دن صبح دس بجے ماڈل ٹاؤن کے مکان کے پھاٹک پر ایک تیز رفتار بائیک آکر رکی۔ اس کا سوار اس قدر عجلت میں اس پر سے اترا کہ بائیک گر پڑی۔ لیکن اس
بہت دن نہ گزرے تھے کہ گلیوں بازاروں میں جھنڈیاں لگنے لگیں، نغمے گونجنے لگے اور تقریریں ہونے لگیں۔ روز کوئی نہ کوئی آ دھمکتا اور کبھی منت سماجت سے اور کبھی زورزبردستی سے ووٹ
Alif Kitab Publications Dismiss