حسن نے آنسو پونچھ کر کہا: ‘‘یہ بھی خدا کا احسان ہے کہ مجھے اس گھر میں پہنچایا، بروں کے ہتھے نہ چڑھایا۔ کسی ایسے ویسے گھر میں جاتا تو خدا جانے کیا روز بد
زلیخا اکیڈمی جانے لگی اور دن و رات کا ہر پل پڑھائی میں بتانے لگی۔ حسن اسے اپنی بائیک پر اکیڈمی لے جاتا اور واپس بھی لے آتا۔ وہ خود ازحد مصروف تھا لیکن مصروفیت
زلیخا اور حسن صحن میں بیٹھے تھے۔ حسن نے زلیخا کو صدر صاحب سے ملاقات کا احوال لفظ بہ لفظ سنایا تھا کچھ نہ چھپایا تھا۔ اور اب زلیخا گم صم بیٹھی تھی اور حسن
کیا موت کا جزیرہ، واقعی موت کا جزیرہ ہی تھا؟ کیوں اس خطرناک مجرم کا نام سننے والوں پر لرزہ طاری کر دیتا تھا؟ بیگم جمشید کیوں اتنے آرام سے اتنے خطرناک مجرم کو ناشتا
میں کون ہوں….؟ ان کے دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ انسپکٹر جمشید اس وقت گھر میں نہیں تھے۔ محمود فوراً اُٹھا اور دروازے کی طرف چل پڑا۔ دروازہ کھولنے سے پہلے اس نے کہا: ”کون
-1 کیا ماورائی کردار ”ڈریکولا“ واقعی انسانی آبادیوں میں داخل ہوکر انسانی خون چوسنا شروع ہوگئے تھے؟ -2 کیا انسپکٹر جمشید بھی ڈریکولا بن گئے تھے؟ یا فرزانہ نے یہ بات کسی اور