تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)
وہ دونوں آواری میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سفینہ سلور گرے سلک کی ساڑھی باندھے ہوئے تھی۔ اس کے کھلے بال جسم کی حرکت کے ساتھ اس کے سیلولیس بلاؤز سے نظر والے بازوؤں پر گرتے
وہ دونوں آواری میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سفینہ سلور گرے سلک کی ساڑھی باندھے ہوئے تھی۔ اس کے کھلے بال جسم کی حرکت کے ساتھ اس کے سیلولیس بلاؤز سے نظر والے بازوؤں پر گرتے
”میں نمبر ملاتی ہوں، آپ بات کریں ۔”اس نے صبغہ سے کہا۔ صبغہ کو لگا جیسے اسے ایک بار پھر سے پہاڑ پر ننگے پاؤں چڑھنا ہے۔ ثانی نے نمبر ملا کر فون صبغہ کے
صبغہ نے شہیر کو بس اسٹاپ کی طرف آتے دیکھا’ وہ خود چند لمحے پہلے بس سے اتری تھی۔ وہ اس وقت اسے ایک فرشتے کی طرح لگا۔ اسے لگا صرف وہی ہے جو اس
”تمہیں آخر ضرورت کیا تھی اس طرح ہمارے گھر آنے کی؟”ثمر اگلے دن کالج میں نایاب کو دیکھتے ہی اس پر برس پڑا تھا۔ ”میں تمہیں بتا چکا تھا کہ ہمارے گھروں میں لڑکیاں دوست
”مجھے اس طرح کی دنیا اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ رہنے کی عادت کبھی نہیں ہو سکتی۔ میں لاکھ کوشش کروں تب بھی نہیں۔” صبغہ نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ ”تو پھر
”بیٹھیں…” اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ دونوں عورتوں نے بلاتامل اس کی دعوت قبول کی اور آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھ گئیں۔ وہ عورت خود ان دونوں سے قدرے فاصلے پر چارپائی
”ہو سکتا ہے۔” ثمر نے سیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کو تو یقینا نہیں لگتی ہو گی۔ آپ تو ہر چیز اتنے آرام سے کر رہے تھے۔ مجھے مسئلہ ہو
”آپ اندر جا سکتے ہیں۔” سیکرٹری نے اسامہ کو منصور علی کے دفتر میں جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ منصور علی نے چند گھنٹے پہلے فون
Alif Kitab Publications Dismiss