پلک جھپکتے دو مہینے گزر گئے۔ جب ہمارے واپس آنے کا وقت ہوا تو عادل نے ایک رات پہلے مجھے کہا: ’’ماہا! میں اب یہاں سے جانا نہیں چاہتا، دو مہینے کیسے گزر گئے پتا
میں بچپن ہی سے چوہوں سے شدید خوف زدہ رہتی تھی۔ کبھی کبھار گھر میں کوئی چوہا گھس آتا، تو میں اسے دیکھتے ہی کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتی اور چیخ چیخ کر سارا
’’میں اس کتاب کو ایڈٹ کروں گی۔‘‘ اس نے جواب دینے کے بجائے دوسری ہی بات کی۔ وہ جیسے کچھ اور محظوظ ہوا۔ ’’یعنی مجھے مومن بنادوگی؟‘‘ ’’وہ زندگی میں نہیں بناسکی تو کتاب میں
’’سبین! اپنے دل میں فضول خدشے نہ پالو۔ خدشے کسی زرخیز پودے کی طرح تیزی سے نشوونما پا کر بد گمانی کی شکل میں تن آور درخت بن جاتے ہیں اور خوشیوں کو لپیٹ میں
’’کیا مسئلہ ہے فرقان! تم مجھے صاف صاف کیوں نہیں بتادیتے…؟ کیا چھپا رہے ہو تم؟ کیوں ضرورت ہے مجھے اتنے لمبے چوڑے ٹیسٹس کی؟‘‘ سالار اب پہلی بار واقعی کھٹکا تھا۔ فرقان کو احساس
آئیے! مجھ سے ملیے ، میرا اور حضرتِ انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شاید میں تب ہی معرضِ وجود میں آگیا تھا جب انسان کو پیدا کیا گیا تھا۔ میرے اچھے ہونے کی