سو لفظی کہانی موت عفت خان اسلامیات کا ٹیچر مرنے کے بعد کی زندگی پر لیکچر دے رہا تھا۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے اور آخرت یومِ جزا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ مرنے سے
مہربان شہزاد احمد کھرل ”ماسی جیراں! یہ چاول چھت پر ڈال دو۔” ”جی بیگم صاحبہ! ابھی ڈالتی ہوں چھت پر۔” ”میں نے فیس بک پر پڑھا ہے جس موسم میں فصلیں کچی ہوں، پرندوں کو
”جی بس! آخری دن ان کے کچھ ایسے ہی گزرے ہیں۔بس اللہ کی جو مرضی۔۔!“ صبا نے ایک نظر سامنے بیٹھے، ذی ہوش لوگوں پر ڈالی تھی۔جو کتنی آسانی سے کسی کو پاگل ہونے کا
مختصر افسانہ تماشا محمود ایاز آج ایک نیا راستہ اُس کے قدموں سے لپٹ گیا۔ خاموش، ویران اور پُراسرار سا۔۔وہ اپنی عمر کا بڑا حصہ زندگی کے نام کر چکا تھا اور باقی کا حصہ
”تم غلط نہ تھیں، تم بالکل ٹھیک تھیں۔ تمہارا مطالبہ جائز تھا۔ تمہارا حق تھا کہ تمہیں امتحان میں بیٹھنے دیا جاتا۔ مشکل زیادہ تھی لیکن تم نے ہار جلدی مان لی، بہت جلدی۔ پر
”اسود بھی تو پتھر ہے۔ وہ تو خوب صورت نہیں اگر تمہاری نگاہ سے دیکھا جائے، پھر اس کے چاہنے والے دیکھو اربوں کی تعداد ہے۔“ ”اسی لیے تو کہتا ہوں سب مقدروں کے کھیل
وہ تب بھی نہیں رویا جب اس کا جما ہوا کاروبار بیٹی کے جاتے ہی ڈوبنے لگا۔ پہ درپہ نقصان اور مالی پریشانیاں اس کے گلے کا ہار بن گئیں۔اگلے پانچ سال اسی کش مکش