”دیکھو! ان کے پاس ہنسنے کے لیے سب کچھ ہے ۔رونے کے لیے کچھ نہیں اور تمہارے پاس رونے کے لیے سب کچھ ہے۔ ہنسنے کے لیے کچھ نہیں۔ کیا میں نے ٹھیک کہا؟” چرواہے
رستم نے مختار کو گھر سنبھالنے پر اکسانا شروع کیا اور اس کی مدد کے لیے کل وقتی ملازمہ کا بندوبست کردیا ۔جانور سنبھالنے کے لیے بھی ایک کے بجائے دو کامے کردیے۔ کچھ ہی
پانچ سال بعد… ”فضہ یار اُٹھ جا مجھے ناشتا چاہیے دفتر سے دیر ہورہی ہے۔ میں نے پیار سے اپنی پیاری بیوی فضہ کو نیند سے بے دار کیا۔ ” وہ تھوڑا سا کسمسائی، نیم
کئی سال پہلے جب افغانستان میں انگریزی کی حکومت تھی۔ ایک دن ایک پریشان حال آدمی فرنگی حاکم کے دفتر میں حاضر ہوا اور ہیڈکلرک سے کہا: ”صاحب! میں گھر سے نوکری کے لیے نکلا
”ڈی ٹیکٹو فرے، کیا میں آپ سے انتہائی اعتماد میں کچھ بات کر سکتی ہوں کہ یہ گفتگو صرف آپ کے اور میرے بیچ رہے گی؟” طاہرہ افتخار نے گہرا سانس لے کر پوچھا ۔
”یہ گھاس تنکوں کے جھونپڑ سے نفرت کرنے لگے ہیں ۔وہ اپنے پتھر کے پختہ گھر چاہتے ہیں اور اپنے مرتبان سونے کے سکوں سے بھرا۔” عبدل کے لہجے میں ناراضی تھی۔داروغہ لمحہ بھر اس
ڈگا ڈگ کے اسٹیشن پر جب گاڑیوں کی آمد کا وقت قریب ہوتا تو سگریٹ فروش گاہشا وہاں ہمیشہ سب سے پہلے آپہنچتا۔ وہ ٹھیک سمجھا کہ اسٹیشن اس کی سب سے بڑی منافع بخش