استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 8
لئے طبقاتی فرق کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ میری بہن نے فون پرپوچھا کہ آپا لاہور سے کیا لے کرآئوں۔ میں نے جواب دیا کہ ابو کی وردی والی تصویر سے آنا۔ بہن سن کر
لئے طبقاتی فرق کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ میری بہن نے فون پرپوچھا کہ آپا لاہور سے کیا لے کرآئوں۔ میں نے جواب دیا کہ ابو کی وردی والی تصویر سے آنا۔ بہن سن کر
حیدر نے اپنی والدہ کو مشورہ دیا۔ ”ہاں ٹھیک ہے۔ یہی والا بیگ ہم بھی لے لیتے ہیں، کچھ سامان اس میں رکھ لیں گے۔” انہوں نے اطمینان سے کہا اور خریداری میں مصروف ہوگئیں۔
روایتی لباس تھا۔ ”آپ کا لباس بہت منفرد ہے۔ کیا یہ یہاں کا روایتی لباس ہے؟” ہم نے بے ساختہ پوچھا۔ ”جی ہاں ۔ یہ اس علاقے کا قدیم اور روایتی لباس ہے۔ ہم آج
(مولوی مولانا روم کبھی بھی نہ بنتا اگر وہ شمس تبریز کا غلام نہ بنتا۔) علامہ اقبال بھی مولانا رومی کو اپنا روحانی پیشوا مانتے تھے اور ان کے کلام سے متاثر تھے۔ مولانا رومی
وہ لڑکا کچھ حیران ہوا اور یہ ناگواری بھری حیرانی تھی۔ ”ہاں ہاں کیوں نہیں، حیدر بیٹا یہ سامان اٹھا لو اور باجی کے ساتھ چلے جائو۔ یہ سامان ان کے کمرے میں رکھ دینا۔”
رہا ہے۔” میں نے انگریزی میں کہا۔ “Please stay in the bus. He is coming to hotel, don’t be scared.” سرخان نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ”اور گروپ کے دیگر لوگ کب اور کیسے آئیں
قریب ہی واقع تھی۔ برقی روشنیوں میں جگمگاتی استقلال اسٹریٹ پر بہت رونق تھی اور سیاحوں کا رش تھا۔ یہاں مختلف برانڈز کی دکانیں بھی تھیں۔ ایک ریڑھی والا سنگھاڑے سے ملتا جلتا پھل بیچ
”یہ مونگ مسور کی دال کا سوپ ہے؟” عبدالستار صاحب نے بائول میں چمچ چلاتے ہوئے کہا۔ ”لہسن کا تڑکا نہیں لگا ہوا ورنہ ہم بھی ایسی ہی دال بناتے ہیں۔ ہمارے اور ان کے
Alif Kitab Publications Dismiss