آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)
وہ اگلے دو تین دن تک اسلام آباد کے ٹرانس میں ہی رہی… وہ وہاں جانے سے جتنی خوف زدہ تھی اب وہ خوف یک دم کچھ ختم ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور
وہ اگلے دو تین دن تک اسلام آباد کے ٹرانس میں ہی رہی… وہ وہاں جانے سے جتنی خوف زدہ تھی اب وہ خوف یک دم کچھ ختم ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور
اس کی آنکھوں میں امڈتے سیلاب کے ایک اور ریلے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے کہا۔ امامہ نے اس بار کوئی وضاحت نہیں دی تھی۔ ’’میں نے تم سے یہ گلہ بھی نہیں
’’دیکھو تو ذرا اس کے کپڑے!‘‘ سمیرا نے خرد کی طرف اپنا موبائل بڑھایا۔ سکرین پر پاکستانی شوبز کا صفحہ کھلا تھا جس میں ملک کی معروف ایکٹریس شیمی کی قابلِ اعتراض تصویر کے ساتھ
’’یہ بے بی، اُف! یہ تو بہت چھوٹا ہے، بالکل ننھا منا سا، دیکھنے میں تو عادل ماموں کے بیٹے جتنا لگتا ہے جسے میں ممی کے ساتھ دیکھنے گئی تھی۔ آنٹی بتا رہی تھیں
“بابا آج مجھے فائیو سٹار میں ڈنر کرنا ہے ۔” میرب آصف کے گلے میں جھولتے ہوئےفرمائش کر رہی تھی۔ “جہاں میری جان کہے گی ہم وہیں چلیں گے۔” آصف نے اس کے گال پر
قطرہ قطرہ بن میں نے چلنا سیکھا ہے ہوا کے ذروں میں مجھے سوارر ہنا ہے نزاکت لپیٹ کر شعاعوں سے ابھرناہے مگر پھوٹ پھوٹ مجھے بہنا ہے پر گھونٹ گھونٹ مجھے سہنا ہے میرے
”تمہیں پتا ہے امامہ! نوسال میں کتنے دن، کتنے گھنٹے، کتنے منٹ ہوتے ہیں؟” خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی آواز میں جسم کو چٹخا دینے والی ٹھنڈک تھی۔ امامہ نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے نل
مریم سب بچوں کو لے کر صحن میں ہوم ورک کروا رہی تھی جب اس نے نوٹ کیا کہ عون بہت چُپ چُپ ہے بلکہ بہت دنوں سے وہ ایسا ہی تھا ابھی بھی سعد
Alif Kitab Publications Dismiss