’’کیا ہوا تھا اسے گوہر بتاؤ مجھے گوہر۔‘‘ اسد اس کے منہ پر ہاتھ مارتے اسے ہوش میں لا رہا تھا۔ کبھی پانی کے چھینٹے مارتا ۔ گوہر ہڑبھڑا کر اٹھا۔ اسد اس کے چہرے
مولوی صاحب اور جماعت کے ساتھیوں کے درمیان بیٹھا وہ ہر طرح کی ذہنی فکر سے آزاد تھا۔ خیال بھی نیک اور اعمال بھی نیک ہوں، تو انسان ایسے ہی ہلکا ہوا میں پنچھی کی
وہ تاریک راہداری سے گزرتے ہوئے خوف زدہ ہورہا تھا۔ سامنے چھوٹا سا ہال نما کمرہ تھا۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ وہ بھی خاموشی سے جاکر بیٹھ گیا۔ اس کا دل
ان دنوں زندگی کی ٹرین بھی کیسے چھکا چھک کرتی گزرتی جارہی تھی۔ عمر رفتہ کے ڈبے بھی تیزی سے آنکھوں کے آگے سے گم ہوتے چلے جارہے تھے۔ میری عمر کی ڈور میں یکے
’’پرائیویٹ ونگ روم نمبر پانچ میں۔‘‘ ’’میری امی بھی ایڈمٹ ہیں۔ میں کسی وقت آؤں گا آپ کی پھوپھی کو دیکھنے۔ اس نے کہا۔ میراں نے سر اٹھا کر اس خوبرو نوجوان کو دیکھا پھر
صبا مجھ سے بے حد ناراض تھی۔میں نے اسے منانے اور سمجھانے کی بہت کوشش کی، لیکن سب بے کار تھا۔ ’’دیکھو! ایسا کچھ نہیں ہوا۔میں نے ساری رات واش روم میں گزاری ہے،بھلا میں
“چلو مردہ باد کا نعرہ نہیں لگانا تو مت لگاو۔۔۔۔لیکن تمہیں یہ ضرور کہنا پڑے گا کہ ” ہندوستان کی جے ہو۔۔”۔۔۔”اگر یہ بھی نا بولا تو مرنے کے لیے تیار رہنا۔۔۔۔ “میں تھوکتا ہوں