شام ڈھل چکی تھی۔ سرد موسم میںیہاں شام ڈھلتے ہی سناٹا چھا جاتا ۔ شہر سے کچھ دور یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں تھا جہاں کچھ ہموار قطعۂ زمین اور چھوٹی چھوٹی ڈھلانوں پر
(داستانِ شبِ غم اور قصہ روزِ درد، اُس مظلوم مخلوق کا جسے ”طالبِ علم” کہتے ہیں……) اپنی پیدائش کے چند لمحات بعد ہی وہ بے چارہ اس بات کا ماتم کر تانظر آتا ہے کہ
میری دن رات یہ کوشش رہی کہ اپنے محبوب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کروں تاکہ امی یا باجی سے بات کروں تو پورے اعتماد اور یقین سے ۔ایسا نہ ہو وہ
”ایکس کیوزمی” ایک شناسا آواز اسے سوچوں کی دنیا سے باہر لائی تھی۔ ”جی ” اس نے نظریں اٹھا کے دیکھا تو چند لمحے اس اتفاق پر حیران رہ گئی۔ اوور آل پہنے گلے میں
اپنے بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی سویرا نے سب سے پہلے ہینڈ بیگ سے وہ لفافہ نکالا اور بہ غور اُسے دیکھنے لگی۔ ”گلِ رعنا رضا” یہ نام وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔
اللہ وسائی نے موتیا کے ہاتھ پر بندھا رومال دیکھا اور پھر موتیا کا چہرہ۔ ” تو کیا کہہ رہی ہے موتیا! میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ چوہدری مراد نے سارے گاؤں کی عورتوں کے