بنتِ حوّا — عزہ خالد
پولیس نے مار مار کر اظہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اظہر نے اپنا جرم قبول کرلیا سزا کا خوف اسے کھائے جارہا تھا۔ ’’ابا… مظہر بھائی… مجھے یہاں سے نکالیں…‘‘ اظہر سلاخوں کے پیچھے کھڑا
پولیس نے مار مار کر اظہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اظہر نے اپنا جرم قبول کرلیا سزا کا خوف اسے کھائے جارہا تھا۔ ’’ابا… مظہر بھائی… مجھے یہاں سے نکالیں…‘‘ اظہر سلاخوں کے پیچھے کھڑا
تین جنوری بروز منگل (2014ء) میں آج آخری بار اس ہوٹل کی صبح دیکھ رہا تھا ۔میں نے مرتضیٰ کو بتا دیا تھا کہ کل میں واپس چلا جاؤں گا۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑا
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا۔ ائیر ہوسٹس مجھ سے کچھ پوچھ رہی تھی پتا نہیں شاید وہ کچھ کھانے پینے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ میرا ذہن اس کی بات سمجھنے سے
بارہ جون بروزجمعرات (2013ء) رات کے دس بج چکے تھے جب سیٹھ کریم کی گاڑی گھر میں داخل ہو کر سیدھی پورچ میں جا کے رک گئی۔ پورچ سے باہر آتے ہی ان کی نظر
وہ ملنگ چلا جارہا تھا بغیر کوئی صدا لگائے۔ کشکول ہاتھ کی بہ جائے گردن میں لٹک رہا تھا جیسے کوئی طوق پہن رکھا ہو۔ بکھرے ہوئے لمبے گرد سے اٹے بال شانوں تک آرہے
’’فارگاڈسیک مام۔۔۔ مجھے ٹھیک سے ریڈی تو ہونے دیں۔۔ آپ کے لیکچر کے لیے میں الگ سے ٹائم نکال لوں گی جانے سے پہلے۔۔‘‘ بلش آن لگاتی ماہم پلٹ کر غصے سے بولی۔ ’’بیٹا میں
میں امجد عظیم پچھلے بارہ سال سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا ہوں۔ سفر وہ واحد چیز تھی جس سے مجھے کوفت ہوتی تھی اور ہمیشہ سفر سے دور رہنے کی کوشش کی
لوگوں کی نظریں خود پر ٹکتی دیکھ کر اسے ایک عجیب سی کوفت کا احساس ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی نظروں میں اس کے لیے کبھی حقارت ہوتی تو کبھی شرارت، کبھی دکھ ہوتا تو کبھی
Alif Kitab Publications Dismiss