آج کل گھر میں ایک ہی”ہاٹ ٹاپک” تھا اور وہ تھا ارسل بھائی کی شادی، بھاوج ہونے کے ناطے مجھ پر جیٹھانی ڈھونڈنے کا دباؤ تھوڑا زیادہ تھا لیکن اب یہ دباؤ میرے کاندھوں اور
”تم اس ایکٹریس سے کیوں ملتے ہو؟” ”وہ دوست ہے میری۔” ”اس سے پہلے تو کبھی عورتوں کو دوست نہیں بنایا تم نے پھر اب کیا ضرورت آن پڑی؟” ”آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟” وہ
”کیوں؟” ”اس کیوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔” ”ہونا چاہیے۔” کرم علی چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔ ”میں”جانور” نہیں ہوں۔” زینی نے اس کی بات پر بے اختیار قہقہہ لگایا،
اکبر اور نسیم اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ اگلا پورا ہفتہ اس ہوٹل میں رہے اور شیراز ایک ایسے کرائے کے گھر کی تلاش میں جہاں وہ ان سب کو رکھ سکے اور پھر کسی
تبریز پاشا نے زینی کے اپنے آفس سے نکلنے کے چند سکینڈز کے بعد ہی اس کے پیچھے اپنا چپراسی دوڑا دیا تھا۔ وہ جب دوسری بار کمرے میں داخل ہوئی تو کمرے کا ماحول