شہربانو گم صم سی رہنے لگی تھی۔ شمیم بیگم کا خیال تھا کہ وقت لگے گا ،بانو سنبھل جائے گی، مگر یہ کیسا زخم تھا جسے وقت بھی بھر نہ پارہا تھا،کیا دکھ تھا جو
وہ تینوں اندر داخل ہوئے، اندر سے بدبو کے شدید بھبکے اٹھ رہے تھے۔ فرحان اندر داخل ہوا۔ طلحہ نے موبائل کی ٹارچ آن کی۔ سفیان اور اس کے بیٹوں کے اندر آتے ہی دروازہ
مہ جمال کو پھر رونا آگیا اور اس نے میواتی کی بیوی سے مخاطب ہوکر پوچھا: میری اماں کہاں گئیں؟ میواتن نے کہا: وہ مر گئی تھیں ان کو دفن کردیا گیا۔ تم کو یہاں
گہری نیلی آنکھوں میں کاجل کی سیاہ تہ، گلابی گالوں پر فائونڈیشن کی چمک اور نازک ہونٹوں پر گہری سرخ لپ اسٹک وہ مکمل طور پر سراپا حسن لگ رہی تھی۔ فیس پائوڈر سے میک
”دیکھو! ان کے پاس ہنسنے کے لیے سب کچھ ہے ۔رونے کے لیے کچھ نہیں اور تمہارے پاس رونے کے لیے سب کچھ ہے۔ ہنسنے کے لیے کچھ نہیں۔ کیا میں نے ٹھیک کہا؟” چرواہے
رستم نے مختار کو گھر سنبھالنے پر اکسانا شروع کیا اور اس کی مدد کے لیے کل وقتی ملازمہ کا بندوبست کردیا ۔جانور سنبھالنے کے لیے بھی ایک کے بجائے دو کامے کردیے۔ کچھ ہی