گو کہ امریکا آنے سے پہلے ہی ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس حسین دیار کے دلکش باشندے ہمیں ہمیشہ غیر ہی سمجھیں گے، لیکن اپنی قابلِ رحم اور انتہائی دکھی ‘آسمان سے گرے
نگار خانہ میں زندگی آگے بڑھتی رہی کہ اچانک ہو کا عالم گزرا۔ کرب ہی ایسا تھا گویا ظالم نے کلیجوں پر ہاتھ ڈالا۔ اتنا پانی تو ساون بھادوں کے سیلاب میں نہ تھا جتنا
مگر عیلی کو اتنے ٹھاٹ باٹ سے جاتے دیکھ آج بھی ایک آنکھ نے احساسِ کمتری میں نچڑے اشک بہائے تھے۔ وہ معصوم آنکھ رِمی کی تھی جسے دیکھ اس کے ابا پریشان ہوئے تھے۔
چھم چھم بادل برس رہا ہے۔ ٹین کی چھتوں پر ساز بُنتا، کہیں درختوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا، پھولوں کے رنگ نکھارتا، دورکہیں پربتوں پر چنگھاڑتا، آج تو چھاجوں چھاج مینہ برس رہا ہے۔مینہ جو
”ہائے کوئی اس لڑکی کو رُلا ہی دیتا ورنہ اس کے اندر تو ورم بن جائے گا۔” یہ وہ نصیحتیں اور مشورے تھے جو ہر بڑی بوڑھی نسیم کے پاس بیٹھتے، اٹھتے اور گزرتے اسے