اب شام ہوچکی تھی، مگر موسم میں موجود خنکی ہنوز برقرار تھی۔ شہمین اس خنکی سے بے نیاز بوجھل دل لیے سفیر کے کمرے کی واحد کھڑکی کو کھولے اس کے سامنے کھڑی تھی اور
اس سہ پہرحنین نے پھر ایک لمحے کے لیے بھی جنید کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ جنید کا ہاتھ ملائمت، لطافت اور طراوت کا مرقّع تھا جس میں اوس،تتلیوں،گُلوںاوررنگوں کے واضح سندیسے تھے۔ اس کا ہاتھ
عقل مند شاعر رُوسی لوک ادب گل رعنا صدیقیدربار میں موجود ہر شخص ہنس ہنس کر دہرا ہورہا تھا۔رُوس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں آدم نامی ایک مشہور شاعر رہتا تھا۔ اُس کے دوست
بلّی اور پرندہ عبدالمجید سالک سنا ہے کسی گھر میں تھی ایک بلّی وہ چوہوں کو کھا کھا کے تنگ آگئی تھی اسے صبح شام ایک کھانا نہ بھاتا بھلا صبر اک چیز پر کیوں
یہ کتاب پڑھ کر مجھے ٹراما ہو گیااور اس ٹراماسے نکلنے کے لیے میں نے کسی دوسری کتاب کا سہارا لیناچاہا ۔اس کوشش میں جوکتاب میرے ہاتھ لگی اس کانام تھامہا بھارت۔ یہ بھی اپنی
موسم تغیر کی جانب مائل پرواز تھا۔ دن بڑھنے لگے تھے اور راتیں دوپہر کے سیالوں کی طرح گھٹنے لگی تھیں، انہی نرم اور گرم دنوں میں صدف کے ہا ں ایک بیٹے کی ولادت
دوسری صُبح جب اماں اُسے اٹھانے آئیں تو اس کے ہاتھ پاﺅں مُڑے ہوئے تھے۔ منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ ”اللہ خیر“ کہہ کر انہوں نے بالے کو آواز دی۔ ”بالے روبی دوڑ کر