بنتِ حوّا — عزہ خالد
پولیس نے مار مار کر اظہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اظہر نے اپنا جرم قبول کرلیا سزا کا خوف اسے کھائے جارہا تھا۔ ’’ابا… مظہر بھائی… مجھے یہاں سے نکالیں…‘‘ اظہر سلاخوں کے پیچھے کھڑا
پولیس نے مار مار کر اظہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اظہر نے اپنا جرم قبول کرلیا سزا کا خوف اسے کھائے جارہا تھا۔ ’’ابا… مظہر بھائی… مجھے یہاں سے نکالیں…‘‘ اظہر سلاخوں کے پیچھے کھڑا
تیئس جون بروزسوموار (2013ء) میں جب سے آیا تھا ،اسے مسلسل زاروزار روتے دیکھ رہا تھا۔ اسے مجھ سے شکایت تھی جو میں نے اسے ماں کے پاس جانے کے لیے راضی کیا تھا تا
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا۔ ائیر ہوسٹس مجھ سے کچھ پوچھ رہی تھی پتا نہیں شاید وہ کچھ کھانے پینے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ میرا ذہن اس کی بات سمجھنے سے
بارہ جون بروز جمعرات (2013ء) میں پرویز گل۔ ایک مزدور کا بیٹا۔ جو گاؤں کے کچے مکان میں اپنی ماں کو تن تنہا چھوڑ کر شہر میں نوکری کی تلاش میں آیا تھا اور گزرے
وہ ملنگ چلا جارہا تھا بغیر کوئی صدا لگائے۔ کشکول ہاتھ کی بہ جائے گردن میں لٹک رہا تھا جیسے کوئی طوق پہن رکھا ہو۔ بکھرے ہوئے لمبے گرد سے اٹے بال شانوں تک آرہے
’’فارگاڈسیک مام۔۔۔ مجھے ٹھیک سے ریڈی تو ہونے دیں۔۔ آپ کے لیکچر کے لیے میں الگ سے ٹائم نکال لوں گی جانے سے پہلے۔۔‘‘ بلش آن لگاتی ماہم پلٹ کر غصے سے بولی۔ ’’بیٹا میں
میں امجد عظیم پچھلے بارہ سال سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا ہوں۔ سفر وہ واحد چیز تھی جس سے مجھے کوفت ہوتی تھی اور ہمیشہ سفر سے دور رہنے کی کوشش کی
لوگوں کی نظریں خود پر ٹکتی دیکھ کر اسے ایک عجیب سی کوفت کا احساس ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی نظروں میں اس کے لیے کبھی حقارت ہوتی تو کبھی شرارت، کبھی دکھ ہوتا تو کبھی
Alif Kitab Publications Dismiss