کیوئیں جاناں میں کون — مصباح علی سیّد
اگر اُس کے پاس سو دلیلیں تھیں تو آپاؤں کے پاس ہزار تاویلیں۔ ہر تاویل اس کی دلیل پر ہتھوڑے کی ضرب ثابت ہوئی۔ ہتھوڑے کی ضرب لوہا برداشت نہیں کر پاتا آخر لوہار کی
اگر اُس کے پاس سو دلیلیں تھیں تو آپاؤں کے پاس ہزار تاویلیں۔ ہر تاویل اس کی دلیل پر ہتھوڑے کی ضرب ثابت ہوئی۔ ہتھوڑے کی ضرب لوہا برداشت نہیں کر پاتا آخر لوہار کی
وسیع سرخ اینٹوں کے صحن کے اطراف دیواروں کے ساتھ کیاریاں بنائی گئی تھیں جن میں لگے ہوئے سبز پودے اور بیلیں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی دیواروں کے بیک گراؤنڈ میں بہت خوب صورت
’’اللہ کے نام پر دے دو، معذور ہوں اللہ بھلا کرے گا۔‘‘ وہ خود کو سڑک پر تقریباً گھسیٹتے ہوئے ہماری گاڑی تک آیا تھا۔ ’’جاؤ دفع ہو جاؤ، نہیں ہے ٹوٹے ہوئے پیسے۔‘‘ میری
سکندر عثمان صبح ناشتے کی میز پر آئے تو بھی ان کے ذہن میں سب سے پہلے سالار کا ہی خیال آیا تھا۔ ”سالار کہاں ہے؟ اسے بلواؤ۔” انہوں نے ملازم سے کہا۔ ”سالار صاحب
”کوئی پریشانی نہیں ہے۔” ”تو پھر…” سالار نے فرقان کی بات کاٹ دی۔ ”تم جانتے ہو مجھے میگرین ہے۔ کبھی کبھار اس طرح ہوجاتا ہے مجھے۔” ”میں ڈاکٹر ہوں سالار!” فرقان نے سنجیدگی سے کہا۔”
“آپ نے کچھ زیادہ نہیں کرنا۔ بس اپنی زندگی کو وہیں سے شروع کرنا ہے کہ جہاں وہ امروز سے آخری ملاقات کے بعد تھم گئی تھی۔ اگر میں کہوں کہ امروز واپس آسکتا ہے
سکندر اور طیبہ سالار کو اس رات واپس نہیں لے کر آئے، وہ اس رات ہاسپٹل میں ہی رہا اگلے دن اس کے جسم کا درد اور سوجن میں کافی کمی واقع ہوچکی تھی۔ وہ
”آئی سویئر پاپا! مجھے واقعی کچھ پتا نہیں ہے۔ وہ اسے لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔” ”یہ جھوٹ تم کسی اور سے بولنا، مجھے صرف سچ بتاؤ۔” قاسم فاروقی نے ایک بار پھر اسی تند
Alif Kitab Publications Dismiss