
اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)
صبا یہ کال پک کرو اور عروج سے بات کرکے اسے بتاؤ کہ تم کون ہو۔ میں چاہتا ہوں مما بابا تک ہماری شادی کی خبر پہنچ جانی چاہیے اور عروج سے بہتر ذریعہ کوئی
صبا یہ کال پک کرو اور عروج سے بات کرکے اسے بتاؤ کہ تم کون ہو۔ میں چاہتا ہوں مما بابا تک ہماری شادی کی خبر پہنچ جانی چاہیے اور عروج سے بہتر ذریعہ کوئی
زرتاشہ ۔ اب کی بار انہوں نے اونچی تان لگائی اندھیرا بڑھ گیا تھا۔ وہ بیٹھی بھی گھنی کچنار کے نیچے تھی۔ جس پر بور لگے بہت دن ہوچکے تھے اب کلیاں بن رہی تھیں
ارے تو ہم کون سا انہیں بتانے لگے ہیں کہہ دیں گے کہ خود ہی پکایا ہے۔ فرحت نے اپنی عمر کے مطابق بات کی۔ اے لو اب اس عمر میں جھوٹ بھی بلواؤگی مجھے
”سنیں اب اٹھ بھی جائیں۔” ایشل کی مدھم آوازعالی شان فرنیچر سے سجے ہوئے کمرے میں پھیل رہی تھی ، جہاں دھیمی ہوتی ہوئی گلاب کی خوشبو اور تازہ فرنیچر پالش کی مہک بتاتی تھی
چوڑیوں کی کھنک اور سریلی گنگناہٹ کچن کی محدود فضا میں بکھر رہی تھی۔ نک سک سے تیار نسوانی وجود خوشبوؤں میں بساہوا تھا۔ اچانک اوون کی آواز نے سارہ کو بتایا کیک بیک ہوگیا
ہر انسان فارغ وقت میں کچھ نا کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جب اسے فارغ وقت میں اس کا من پسند کام مل جائے تو وہ خوشی سے جھومنے بلکہ ہوا میں اُڑنے لگتا ہے۔ ہماری
فلک جہاں ایک طرف وہ آواز سن کے پریشان ہوچکا تھا وہیں تھالی دیکھ کے بھی حیران تھا۔ اسی وقت اسے اپنے پیچھے سے آہٹ سنائی دی جسے محسوس کرکے وہ بدحواسی کے عالم میں
”کیا مطلب؟” اُ س نے مجھے گھورا۔ ”یار! ویسے دیکھا جائے تو وہ بھی غلط نہیں ہیں۔ ایک ماں ہونے کی حیثیت سے ان کے کنسرنز بالکل جائز ہیں۔” میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔