رشتے والی — قرۃ العین مقصود

’’بہو! او بہو، کہاں مر گئی ہے؟‘‘
زینب رشتے والی نے کمرے سے ہانک لگائی۔ اس وقت وہ شیشے کے سامنے تیار ہو رہی تھی۔اس نے گہرے سرخ رنگ کی لپ سٹک اور پھر سرمے کی موٹی موٹی سلائیاں آنکھوں میں لگانے کے بعد بڑی سی چادر سے خود کو لپیٹ لیا تھا۔ساس کی آواز سن کر فاطمہ تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی۔اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔
’’امی آپ نے بلایا ۔‘‘فاطمہ اپنی سانس درست کرتے ہوئے بولی۔
چل! بڑا خیال ہے تجھے میرا۔ کب سے آوازیں دے رہی ہوں ،کہاں مر گئی تھی۔‘‘زینب طنزیہ بولی۔
’’وہ امی علی کو سلا رہی تھی۔‘‘ وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔
’’اچھا بس بس!زیادہ ڈرامے نہ کر۔ میرے آنے سے پہلے کپڑے دھو کر کھانا بنا لینا۔آسیہ نے ٹیوشن سے آکر کھانا کھانا ہے۔صبح سے جاتی ہے اور شام پڑ جاتی ہے۔‘‘ زینب نے اسے ہدایات دیتے ہوئے کہا۔
’’جی امی میں کر لوں گی۔‘‘ فاطمہ سعادت مندی سے بولی۔
’’میں جا رہی ہوں ،ایک رشتہ دکھانا ہے لڑکے والوں کو۔ ہوسکتا ہے دیر ہوجائے۔‘‘ زینب نے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی اور فاطمہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔
٭…٭…٭
’’ارے بہن آپ فکر نہ کریں،آپ کی بیٹی راج کرے گی راج۔‘‘ زینب چرب زبانی سے بولی۔
’’آپ کی بڑی شہرت سنی ہے اس لیے تو یہ رشتہ کر رہے ہیں۔‘‘ لڑکی کی ماں فوراً بولی۔ زینب اس وقت لڑکی والوں کے گھر بیٹھی تھی اور ساتھ میں لڑکے کی ماں اور بہن بیٹھی تھیں۔ زینب اب تک سینکڑوں رشتے کروا چکی تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ اس کا کروایا ہوا رشتہ کبھی ناکام نہیں ہوا تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ ایک کام یاب رشتے کروانے والی تھی اور زینب رشتے والی کے نام سے مشہور تھی۔
’’ارے بہن آپ فکر نہ کریں ،آپ کی بیٹی اب ہماری بیٹی ہوئی اور آپ کو ہم سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔‘‘ زینب خوش ہوگئی۔ اس نے دونوں طرف سے اپنے پیسے کھرے کیے اور گھر کی طرف راونہ ہو گئی۔
٭…٭…٭
جب تمہیں کہا تھا کہ کپڑے دھو لینا تو پھر کیوں نہیں دھوئے کام چور؟‘‘ زینب غصے سے بولی۔
’’امی وہ علی تنگ کر رہا تھا۔ وہ اٹھ گیا تھا اس لیے نہیں کر سکی۔ کل کر دوں گی۔‘‘ فاطمہ ڈرتے ڈرتے بولی۔
’’نکل جا میرے گھر سے، تیرے جیسی کی کوئی ضرورت نہیں مجھے اور میرا پوتا دے جا مجھے۔‘‘ زینب نے علی کو اُٹھاتے ہوئے کہا جو رو رہا تھا۔
’’لیکن امی میرا قصور کیا ہے؟‘‘ فاطمہ خوف سے بولی۔
’’تیرا قصور یہ ہے کہ تجھے میں نے اپنی بہو بنایا، تو ا س قابل نہیں تھی۔ نکل جا،تیری ضرورت نہیں ہے، مجھے نا میرے بیٹے کو۔‘‘ زینب نے اسے دھکا دیتے ہوئے کہا۔ فاطمہ نے اس کی بہت منتیں کی لیکن زینب نہ مانی۔ علی مسلسل رو رہا تھا۔زینب نے اسے بازو سے پکڑ ا اور کھینچتے ہوئے باہر لے گئی۔گیٹ سے باہر دھکا دیا اور دروازہ بند کر دیا۔ زینب کے موبائل کی گھنٹی بجی۔
’’چپ کر جا ناہنجار کی اولاد! اب تجھے ایسے ہی رہنا ہے۔‘‘ زینب اسے ڈانٹتے ہوئے بولی۔
’’ہاں ہاں! آپ فکر نہ کریں۔ میرے پا س بہت رشتے ہیں۔کل ہی میں لڑکے والوں کو لے کر آجاؤں گی۔‘‘ زینب فون میں کسی سے بات کرتے ہوئے بولی۔
’’فکر نہ کریں بہن! آپ کی بیٹی راج کرے گی راجـ۔ ‘‘

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

Read Next

ہم — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!