لیکن وہ پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی پیچیدگی نکال ہی لیا کرتا۔ میں اسے کہتی کہ میں چاہے لاکھ مردوں سے بات کروں لیکن مجھ پر صرف تمہارا حق ہے۔ جس طرح
دنیاکی بڑی بڑی طاقتیں سر جوڑے ایک میز کے گرد جمع تھیں۔ ان کا ایجنڈا ”شام” تھا۔ دنیا میں کسی کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں تھا کہ شام میں جابر حکمران کے عنان کے
”جلدی کوئی نوکری مل جائے گی۔” ”تم کام کرنا ہی نہیں چاہتے ورنہ کب کی نوکری مل جاتی۔” نسرین نے مورچہ نہیں چھوڑا تھا۔ ”بتایا تو ہے نوکریاں آسانی سے نہیں ملتیں۔”ناصر نے باورچی خانے
صبح باہر جانے سے پہلے اعزازنے ماروی کے کمرے پر دستک دی اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔ ”امی کچھ وقت ہے آپ کے پاس؟ کچھ بات کرنی ہے۔” اعزاز نے نیاز مندانہ لہجے میں
”مدحت عادتیں بدلی جاسکتی ہیں مگر فطرت نہیں، جو بھی ہو انسان دوبارہ اپنی فطرت پر ضرور پلٹتا ہے۔ زہریلا انسان ڈسنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ خلیل کیا کہنا چاہتے تھے میں سمجھ نہیں
یوں ہی باجیوں کے گھر مختلف رنگ سجاتے سجاتے وہ وقت آ ہی گیا۔ اُسے انیسواں سال لگ گیا تھاکہ اچانک اماں کی طبیعت ایسی بگڑی کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہی اور