زندگی اپنے معمول پر رواں دواں تھی، اس کا لیپ ٹاپ ٹھیک کام کر رہا تھا۔ وہ کبھی تو پریشان ہوتی مگر پھر مطمئن ہو جاتی۔ مہروش کا بھائی اس کے لئے ایسر کا لیپ
وہ لرزتے ہاتھ ہر دم ساجد کے لئے دعا گو رہتے تھے۔ وہ آنکھیںہر لمحہ ساجد کی خیر و عافیت کی دعائیں مانگتے مانگتے بھیگ جایا کرتی تھیں۔ وہ عورت آج بھی اپنے ہاتھوں سے
تنگ دستی انسان کو ننگے پاؤں سفر کرواتی ہے، جب تک کہ آبلوں میں سوراخ ہو کروہ پھٹ نہ جائیں۔ زخم بھر جانے کے بعد ایک نیا سفرکسی نئے آبلے کا منتظر ہوتا ہے اور
سرخ اشارے پر گاڑی روک کر سعدیہ نے ساتھ بیٹھے احمد کو دیکھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے اپنے سارے دن کی روداد سنانا شروع کردیتا تھا اور طوطے کی طرح نان سٹاپ بولے
”اور کیا ہورہا ہے کوئی نئی تازی؟” اس نے پوچھا۔ ”کچھ خاص نہیں! کڑی پکائی تھی، گھر قریب ہوتا تو تمہیں بھی بھیج دیتی۔ خیر! وہ منال کے اسکول والے پکنک پر لے جارہے ہیں
”پری کا سر گود میں رکھا میں رو رہا تھا اور چیخ رہا تھا کہ مجھے محبت نہیں چاہیے مجھے پری چاہیے۔ مجھے میری پری لوٹا دو، مجھے میری پری لوٹا دو۔ میری چیخ و