معین اختر:صدائے ظرافت اب نہ آئیں گے پلٹ کر۔۔۔ ۔ شاہکار سے پہلے
ایوارڈز معین اختر کو جب پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازاگیا تو ان کے والد روپڑے۔ یہ ایک باپ کے خوشی کے آنسو تھے جن میں گزرے وقت کی تکلیفوں اور غموں کا پانی شامل تھا۔
ایوارڈز معین اختر کو جب پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازاگیا تو ان کے والد روپڑے۔ یہ ایک باپ کے خوشی کے آنسو تھے جن میں گزرے وقت کی تکلیفوں اور غموں کا پانی شامل تھا۔
ولیم شیکسپیئر صوفیہ کاشف سولہویں صدی کے لندن کے تھیڑرز میں تفریح کے لیے آنے والا اعلیٰ مہذب اور متمدن طبقہ اشرافیہ گھوڑوں کی پشت پر سوار جب ترون اکڑائے تھیڑکے سامنے پہنچتا تو صدیوں
ساغر صدیقی صوفیہ کاشف بہار سے پہلے بہار اور وقت سے پہلے پذیرائی کا مزا چکھنے والا ساغر صدیقی عروج پر پہنچتے پہنچتے شہر کی گلیوں میں گمشدہ ہو چکا تھا۔سہانے دلنشیں خوابوں کو مشعل
سٹیفن کنگ کی ہمت، بہادری اور یقین کی داستان یہاں ختم نہیں ہوتی۔ بروکن فیملی کاشکار یہ بچہ ساری زندگی مختلف طرح کے خوف اور وسوسوں سے لڑتا رہا ہے۔ اپنی ماں کو محنت کرتے
مایا کے بیٹے کلائیڈ کی پیدائش کے بعد اسے سان فرانسسکو سے بہتر جاب کی آفر ہوئی تو اس نے ماں سے اجازت طلب کی۔ اس موقع پر مایا کی ماں نے اسے یہ نصیحت
قلم کار کی شہزادی ایم اے ایقان ”برف سے ڈھکے اُس بلند پہاڑ کی دوسری جانب دوسرے لوگوں کا دیس ہے۔ وہاں ایک شہزادی رہتی ہے جو اپنے شہزادے کا انتظار کرتی ہے۔ اُس کا
کفن میں پاکٹ فاطمہ شیخ ”کیا صاحب؟ ایک جیکٹ کم قیمت میں خریدنے کے لیے آپ نے سارا دن ہمارا ٹانگ تڑوایا۔“ گل خان اپنے مخصوص پختون انداز میں بولا۔ ”کچھ تو خوفِ خدا کرو
لاڈلا انعم سجیل وہ ہمیشہ سے ہی ماں کا لاڈلا تھا، اکلوتا جو تھا۔ چھوٹا تھا تو جب بھی اسے چوٹ لگتی، بھاگتا ہوا ماں کے پاس آتا۔ کبھی میز سے ٹھوکر لگی اور پاﺅں