علیزہ اس کے سوال سے زیادہ مسکراہٹ سے گڑ بڑائی تھی۔ ”ایسے سوال کی کیا تک بنتی ہے؟” اس نے عمر جہانگیر کے چہرے سے نظر ہٹاتے ہوئے کچھ جھینپ کر کہا تھا۔ ”مجھے کیا
عصر کا وقت تھا جب وہ دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے نکلنے لگا ۔اُسے لان میں بیٹھکر تسبیح پڑھتے دادا ابو کی آواز سُنائی دی۔ ”اسد بیٹا ! نماز کا وقت
چلتا جا تُو الف نگر میں! ضیاء اللہ محسن چاند چکوری ہوتا بھیّا تارے ہوتے گول سورج چاچو لمبے ہوتے کھمبے گول مٹول چُوں چُوں چڑیا چارہ کھاتی ٹھک ٹھک بجتا ڈھول کہاں ہے ممکن؟
میں نے پالے طوطے چار ارسلان اللہ خان میں نے پالے طوطے چار جن سے کرتا ہوں میں پیار پانی پیتے ہیں یہ خوب کھانا کھاتے ہیں بسیار بلّی سے اور چوہے سے ہر دَم
کچھ دلبرداشتہ سی ہوکر شہر بانو نے اپنی توجہ ونڈوشاپنگ پر مرکوز کرلی۔ ایک شواسٹور کی ونڈو میں لگے ہوئے ایک جوتے نے اس کی نظر اپنی طرف بھٹکائی تھی۔ وہ چلتے چلتے ر ک
نویں انعام یافتہ نظم دادی جان نے دال پکائی سارہ قیوم دادی جان نے دال پکائی امی، ابو، آپا، بھائی ناک بھوں سب نے چڑھائی دادی جان نے دال پکائی کاش بنائی ہوتی چُوری کُنا،