امربیل — قسط نمبر ۱۳
”مجھے ایک بار اس سے بات تو کرنے دو۔” ”فائدہ…مجھے عمر سے شادی نہیں کرنا…کسی طور بھی نہیں کرنا…میں اس کے ساتھ اپنی زندگی ضائع نہیں کر سکتی۔” ”مجھے یقین نہیں آتا علیزہ کہ ایک
”مجھے ایک بار اس سے بات تو کرنے دو۔” ”فائدہ…مجھے عمر سے شادی نہیں کرنا…کسی طور بھی نہیں کرنا…میں اس کے ساتھ اپنی زندگی ضائع نہیں کر سکتی۔” ”مجھے یقین نہیں آتا علیزہ کہ ایک
”میری اماں کہاں ہیں بابا؟” میں نے سکتے کے عالم میں پوچھا۔ بابا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھر سے باہر لے گئے۔ میری ماں مٹی اوڑھے سکون سے سو رہی تھی۔ ”آٹھ ماہ ہو
وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے گھنگھریالے بالوں میں بے مقصدکنگھا پھیرتے ہوئے بنا پلک جھپکے خود کو شیشے کی آنکھ سے دیکھ رہی تھی۔ وہ شاید اب بھی ان فلٹرز کے انتظار میں تھی
اگلے دن وہ شام کو شہلا کے ساتھ کے ایف سی گئی جب ایک لمبے عرصے کے بعد اس نے عمر کو وہاں دیکھا۔ علیزہ اور اس کی ٹیبل کے درمیان کافی فاصلہ تھا اور
”تم ملنا چاہو گی اس کے گھر والوں سے؟” ”نہیں۔” علیزہ گڑبڑا گئی۔ ”میں کیوں ملنا چاہوں گی۔” ”اچھے لوگ ہیں۔” ”ہاں جنید سے مل کر اس کا اندازہ ہوتا ہے، مگر مجھے جنید کو
”تم کتے کی وہ دم ہو جو ہمیشہ ٹیڑھی رہتی ہے… یہاں تمہارے پاس میں کوئی منت سماجت کرنے نہیں آیا… تمہارے جیسے معمولی جونیئر افسر کی اوقات کیا ہے میرے سامنے… تمہارا دل چاہے
”میں صبح تمہیں ایک بھجوا دوں گا۔” ”نہیں’ میں خرید لوں گی۔” ”میں نے کہانا بھجوا دوں گا۔ رزلٹ کب تک آرہا ہے… یا آچکا ہے؟” ”ابھی نہیں آیا’ چند ہفتوں تک آجائے گا۔” ”پتا
”ہیلو ایاز ! کیسے ہو تم؟” نانو نے آواز پہچانتے ہی کہا تھا۔ ایاز حیدر ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ ”میں بالکل ٹھیک ہوں ممی، آپ کیسی ہیں؟” ”میں بھی ٹھیک ہوں… تم
Alif Kitab Publications Dismiss