عدل — بشریٰ خان
امی امی! مجھے علی نے مارا، زویا روتی ہوئی مسز کمال کے پاس آئی۔” نہیں امی! زویا جھوٹ بول رہی، امی میں نے نہیں مارا۔” علی جھوٹ موٹ کا منہ بناتے ہوئے بولا۔ مسز کمال
امی امی! مجھے علی نے مارا، زویا روتی ہوئی مسز کمال کے پاس آئی۔” نہیں امی! زویا جھوٹ بول رہی، امی میں نے نہیں مارا۔” علی جھوٹ موٹ کا منہ بناتے ہوئے بولا۔ مسز کمال
پرانے دور کی بات ہے ملک میں تعلیم کی شرح بہت کم تھی، جو کہ نئے دور میں بھی مستقل مزاجی سے وہیں موجود ہے۔ لیکن اس دور میں اکثر لوگوں کو اپنا نام بھی
میں اس وقت جس جگہ پر موجود ہوں وہ میرا کمرہ ہے، جہاں فی لحال نیم تاریکی ہے۔ کمرے کا احاطہ خاصہ تنگ ہے۔ عقبی دیوار پر موجود ایک ننھے سے روشن دان سے ہلکی
پچھلے پہر جب چاند بھی ڈھل گیا ہوتا ہے اور تاروں کی بارات بھی قریباً جاچکی ہوتی ہے، بجنے والی یہ مترنم سی گھنٹی میرے خوابوں کو چکنا چور کرگئی۔ “کون ؟” میں نے ذرا
وہ ایک ادھوری زندگی گزار رہا تھا۔ بعض لوگ ساری عمر زندہ رہنے کے باوجود مکمل زندگی نہیں گزار پاتے۔ مکمل زندگی بہت کم لوگوں کونصیب ہوتی ہے ۔ اُس کے باپ نورزمان نے دوشادیاں
”تم کیوں آئی ہو؟ دور رہو میرے بیٹے سے….”، آپریشن تھیٹر کے باہر آمنہ فراست کا سہارا لیے کھڑی تھی، سامنے سے ثروت اور عماریہ کو آتا دیکھ کر مشتعل ہوگئی۔ فراست نے آگے بڑھ
مقدم چودھری اور مراد چودھری آگے پیچھے گھر پہنچے تھے۔ ”نگو ، ثمین” چودھری مراد نے رعب دار سی اُونچی آواز میں بیویوں کو پکارا۔دونوں نے شوہر کا ایسا لہجہ اور انداز پہلے کبھی نہیں
صبح کے لگ بھگ سات بج رہے تھے جب وہ جھولا جسے میں بڑے مزے سے جھول رہا تھا، اچانک سے آنے والے زلزلے سے تھر تھر کانپنے لگا۔ اچانک سے آنے والی اس افتاد
Alif Kitab Publications Dismiss