سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ
باہر محلے میں شور کی آواز آنے لگی، تو امی بھی بڑ بڑانے لگیں۔ ’’ شروع ہو جاتی ہیں صبح صبح ۔‘‘ امی کھانا لگاتے ہوئے غصے سے بول رہی تھیں،باہر گلی میں بھی خواتین
باہر محلے میں شور کی آواز آنے لگی، تو امی بھی بڑ بڑانے لگیں۔ ’’ شروع ہو جاتی ہیں صبح صبح ۔‘‘ امی کھانا لگاتے ہوئے غصے سے بول رہی تھیں،باہر گلی میں بھی خواتین
تعلیم کی اہمیت پر ابا جی کے بہت لیکچر سنے، اماں کی صلواتیں بھی سنیں مگر اپنی ازلی ڈھٹائی کی بہ دولت ہم نے مانا اور نہ ہی پڑھا ۔اماں اٹھتے بیٹھتے یہی بولتیں۔ ارے
’’امی!‘‘ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’جی بیٹا؟‘‘ وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ’’میں آجاؤں؟‘‘ ’’آجاؤ پوچھ کیوں رہے ہو؟‘‘ ’’لائٹ جلا دوں؟‘‘ وہ اب کمرے میں
’’جو وقت گزر جاتا ہے ارسلان وہ پھر لوٹ کے نہیں آتا اور ماضی کو بھلا کے آگے بڑھ جانا ہی عقل مندی ہے۔ جو میری قسمت میں لکھا تھا میں نے اسے خوش دلی
وہ بڑا ہلکا وجود لئے امریکہ واپس آئی تھی اور امریکہ پہنچ کر اس نے اپنا نمبر آن کیا تھا اور اس کا فون یک دم سارے رشتوں سے جاگنے لگا تھا۔ پیغامات کا انبار
’’اور کتنے دوست ہیں تمہارے؟‘‘ ’’ہمارا صرف چار دوستوں کا گروپ ہے جس میں، میں صارم ، سمیر اور زوہیب ہیں اور آج کل ہم چاروں صرف انجوائے کر رہے ہیں۔‘‘ عظام نے کرسی پر
رات کی سیاہی صبح کے اجالوں سے جدا ہورہی تھی۔ روشن بیگم نے نماز پڑھنے کے بعد مٹی کے کٹورے میں پانی بھر کر رکھا روٹی کے ننھے ننھے ٹکڑے کرکے فرش پر پھینکتے ہوئے
’’ہاں!‘‘ اس یک لفظی جواب نے جبریل کو ایک بار پھر کچھ بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، وہ اب اسے نہیں دیکھ رہی تھی، اس کافی کے مگ سے اٹھتی بھاپ کو دیکھ رہی
Alif Kitab Publications Dismiss