ذالعید نے گھر کے بیرونی دروازے کو کھول دیا۔ رات کے اس پچھلے پہر پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ”اور ماما جان… ماما جان کبھی گھر کو تاریک نہیں رکھتی تھیں۔” کھلے دروازے
دروازے پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ خدیجہ کی ساری حسیات بیدار ہو گئیں۔ چند لمحوں بعد اس نے کی ہول میں چابی لگنے کی آواز سنی۔ خلاف معمول مظہر نے ڈوربیل نہیں بجائی تھی۔
”آپ اسے کسی عامل کے پاس لے کر کیوں نہیں جاتیں؟ضرور کوئی آسیب ہے اس پر ورنہ کوئی نارمل انسان بھی ایسا رویہ اختیار کرتا ہے بھلا؟”وہ آنیہ کی تیما ر داری کے لیے آئی
میں نے اس سے سکون اور سہارا مانگا تھا۔ میں نے اس سے آسانی اور محبت مانگی تھی۔ میں نے اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی تھی۔ اس رات پتا نہیں کیوں مجھے یہ
”ہاں۔” ”پھر اب تم کہاں رہتی ہو؟” ”ایک ہاسٹل میں۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اب اس سے اورکیاپوچھے، چند لمحے وہ خاموش رہا تھا۔ ”پھرتم یہاں کیوں آئی ہو؟” ”یہاں کچھ لوگوں