صدقہ — ماہ وش طالب

رات کی سیاہی صبح کے اجالوں سے جدا ہورہی تھی۔ روشن بیگم نے نماز پڑھنے کے بعد مٹی کے کٹورے میں پانی بھر کر رکھا روٹی کے ننھے ننھے ٹکڑے کرکے فرش پر پھینکتے ہوئے وہ ’’آآ‘‘ کرنے لگیں، پھر مٹھی بھرگندم کے دانے بھی منڈیر پر بکھیر دیے۔ فاطمہ ہمیشہ کی طرح دادی کی اس حرکت پر ناک بھوں چڑھاتی باورچی خانے میں چلی گئی جہاں امی گرما گرم تڑکا لگے ساگ کے ساتھ خستہ اور نرم پراٹھے اتار رہی تھیں۔
’’تجھے اسکول سے چھٹیاں کب ہوں گی ؟‘‘ امی دوسرے پراٹھے کے لیے پیڑے کو بل دے رہی تھیں۔
’’آج پتا چلے گا، رول نمبر سلپ ملنی ہے۔‘‘ وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولی۔
’’ہاں تو چھٹیاں بھی ملیں گی نا پیپروں سے پہلے تو میں سوچ رہی تھی کہ تیری نانی کے پاس چلتے ہیں۔ بہت بیمار ہیں وہ تجھے بھی بڑا یاد کرتی ہیں۔‘‘ وہ اب انگلیوں سے چمٹ جانے والا آٹا اتار رہی تھیں۔
’’امی میں نے تیاری بھی کرنی ہے، پھر چلیں گے۔‘‘ وہ اٹھ کر سنک میں ہاتھ دھونے لگی۔
’’چل ایک دو دن کے لیے ہی سہی، بتا تو رہی ہوں بخار بہت تیز ہے۔ دمے سے پہلے ہی بہت کم زور ہوچکی ہیں۔‘‘
’’اچھا میں سلپ لے آئوں آج پھر بتائوں گی۔‘‘
’’اچھا امی اور دادی اللہ حافظ۔‘‘صحن میں پڑی چارپائی سے بستہ اٹھاتے ہوئے وہ بیرونی دروازہ پار کر گئی۔
’’ اللہ کی امان میں رہو بیٹی۔‘‘ روشن بیگم کی نحیف سی آوازبرآمد ہوئی۔
سورج اوٹ میں چھپ رہا تھا اور رات ، شام کے پہلو میں چھپی وار کرنے کے انتظار میں تھی۔ فاطمہ کتابیں ہاتھ میں پکڑے صحن میں آگئی۔ روشن بیگم حسب ِمعمول ’’آآ‘‘ کر کے مرغیوں کو رات کے کھانے پر بلا رہی تھیں۔ کٹورے کا پانی دیکھا جو تقریباً ختم ہورہا تھا، پھر پانی بھر کر واپس منڈیر پر رکھ دیا۔ سارے دن میں یہ ہی ایک کام تھا جو وہ دو وقت پوری ذمہ داری سے کرتی تھیں۔ ’’ ایک میلے کا آنکھوںدیکھا حال‘‘کے رٹے لگاتی فاطمہ کو مرغیوں اور دادی کے شور سے کوفت ہورہی تھی۔ کچھ دیر انتظار کرتے رہنے کے بعد وہ کتاب بندکر کے کچے صحن کی طرف آگئی۔روشن بیگم اس کے تاثرات سے بہ خوبی واقف تھیں۔
’’آپ کو کیا شوق ہے انہیں پالنے کا؟ ایک تو شور، دوسرا نری گندگی۔ ‘‘ اس نے حتی الامکان اپنی آواز آہستہ رکھی مگر اپنے لہجے سے نا پسندیدگی نہ چھپا سکی۔
’’بیٹی اللہ خوش ہوتا ہے جو اس کی مخلوق سے پیار کرتا ہے۔‘‘ جو اس کی مخلوق کا خیال رکھتا ہے۔ وہ اس کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ اب چارپائی پر بیٹھ چکی تھیں۔ فاطمہ لمحہ بھر کو چپ ہوئی پھر بولی:
’’اچھا تو اگر آپ ان کا خیال نہیں رکھیں گی ، انہیں کھانا نہیں کھلائیں گی تو کیا یہ بھوکی رہ جائیں گی؟ ان کا بھی بندوبست کیاہی ہوگا اللہ نے۔ آپ کیوں اتنے مہنگے چاول، گندم اور گیہوں ضائع کرتی ہیں۔‘‘ وہ منڈیر پر کتنی چڑیوں کو دانہ چگتے دیکھ رہی تھی۔
’’ہائے فاطمہ بیٹی! یوں نہیں کہتے۔ اللہ نے نے تو بے شک اپنی ہر مخلوق کے رزق کا بندوبست کیا ہے اور ان پرندوں کا بھی ، تب ہی تو اس نے مجھے موقع دیاہے کہ میں کملی گناہ گار کچھ نیکیاں کما لوں۔ اس نے مجھے وسیلہ بنایا ہے ان کے رزق کا۔‘‘ روشن بیگم نے اپنے کالے جھریوں زدہ ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر پیار سے سمجھانا چاہا۔
’’اللہ تو بہت بڑا ہے دادی، اسے کوئی ضرورت نہیں آپ کو یا کسی اور کو اپنی خلقت کی مدد کا وسیلہ بنانے کی۔‘‘ وہ ابھی بھی معترض تھی۔
’’ٹھیک کہتی ہو فاطمہ بیٹی اسے ہماری ضرورت نہیں، پر ہمیں تو اس کی لوڑ ہے نا۔ وہ یہ جانتا ہے تب ہی تو اپنے بندوں کو اصلاح کرنے کا ، انہیں اپنے گناہوں کا صدقہ نکالنے اور نیکیاں کرنے کا موقع دیتا ہے جسے ہم اپنی نادانی میں گنوا دیتے ہیں اور وہ موقع سفر کرتے کرتے کسی اورکو مل جاتا ہے۔ اللہ کے پاس موقعوں کی کمی نہیں۔‘‘ فاطمہ نا سمجھی سے انہیں دیکھتی رہی۔
’’اب دیکھو نا! یہ جو بے زبان پرندے میری منڈیر پر آتے ہیں، دو دن اگر میں انہیں کچھ نہ ڈالوں ، مٹی کا پیالہ سوکھا پڑا رہے تو تیسرے دن یہ نہیں آئیں گے لیکن کوئی اور منڈیر ہوگی ان کاپیٹ بھرنے کے لیے بھوکے نہیں رہیںگے یہ اور نہ ہی پیاسے، مگر میں تو خالی ہاتھ رہ گئی نا مفت کی نیکی سے۔‘‘ دادی کی آنکھیں جن کا سفید حصہ بھی اب دھبوں والا ہوگیا تھا، ہلکی ہلکی نم ہوئیں۔ فاطمہ اُن کی باتیں غور سے سن رہی تھی پھر اسے یاد آیا کہ ابھی پانچ درخواستیں بھی یاد کرنی ہیں، سو وہ اٹھ کر واپس برآمدے میں چلی گئی۔
’’کیسا ہوا پیپر فاطمہ ؟‘‘ ماریہ امتحانی پرچے کو فولڈ کرتے ہوئے جیومیٹری بکس میں رکھ رہی تھی۔
’’بہت اچھا۔‘‘
’’تم نے مکمل کرلیا تھا ٹائم پہ ؟‘‘ وہ اسکول کے گیٹ کے پاس کھڑی تھیں۔
’’ہاں! بس تھوری سی تشریح رہ گئی تھی مگر وہ موٹی والی سپرنٹنڈنٹ آگئی اور پیپر کھینچ لیا۔‘‘ ماریہ نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’کوئی بات نہیں! تم نے مفہوم وغیرہ صحیح لکھا ہوگا تو پھر اتنے نمبر نہیں کٹیںگے۔‘‘ وہ اسے تسلی دے رہی تھی۔
’’ماریہ فاطمہ، رکشے والے انکل نہیں آرہے۔‘‘ زرتاشہ انہیں کافی دیر سے ڈھونڈرہی تھی، اب تقریباً چیختے ہوئے انہیں اطلاع دی۔
’’کیوں؟ تمہیں کس نے بتایاہے ؟‘‘فاطمہ سب سے پہلے پریشان ہوئی تھی۔
’’میرے پاپا نے فون کرکے بتایا ہے ، انکل نے انہیں فون کرکے بتا دیا تھا کہ رکشہ خراب ہوگیا ہے۔‘‘
’’اب کیا ہوگا؟ ہم کیسے جائیںگے ؟‘‘ماریہ کے چہرے پر بھی فکر مندی کے تاثرات ابھرے۔
’’آج آخری پیپر تھا اور آج ہی یہ سب ہونا تھا؟ امی انتظار کر رہی ہوں گی۔ آج نانی امی کی طرف بھی جانا ہے۔‘‘ وہ ذرا پرے ہو کر گرائونڈ کی ایک جانب رکھے سنگی بینچ پر بیٹھ گئی۔
’’میرے پاپا تو آرہے ہیں مجھے لینے بائیک پر ، میں جارہی ہوں۔ اللہ حافظ۔‘‘ زرتاشہ کہتے ہوئے تیزی سے باہر نکل گئی۔
’’کتنی خودغرض ہے یہ، اب ہم یہاں انتظار کریںگے؟‘‘ فاطمہ نے غصے سے منہ موڑ لیا۔
’’تم چھوڑو اسے، ہم لوکل چلیںجاتے ہیں۔ کیا پتا رکشہ کب صحیح ہو اور پھر وہ آئے گابھی یا نہیں۔‘‘ماریہ بھی ڈھیلے پن سے اس کے ساتھ بینچ پر ٹک گئی۔
’’چلو ٹھیک ہے… لیکن‘‘ وہ ہچکچائی۔
’’میرے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہیں۔‘‘ وہ نظریں جھکائے بولی۔
’’اوہ نو! فاطمہ پیسے میرے پاس بھی نہیں ہیں ، میں نے سوچا رکشہ تو لگوایا ہوا ہے کیاضرورت پڑے گی۔ اُف اب کیاکریں گے؟‘‘ وہ شدید افسوس اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئی۔ وہ دونوں کچھ دیر یوں ہی گم سم بیٹھی رہیں۔ رش آہستہ آہستہ کم ہوتے نہ ہونے کے برابر ہوگیا تھا۔ فاطمہ تو باقاعدہ رونے والی ہوگئی۔
ماریہ بیگ کی زپ کھول کر جیومیٹری بکس اندر رکھنے لگی تو کسی خیال نے اس کے ذہن میں جھماکا کیا۔ اس نے تیزی سے بیگ کی اندرونی زپ کھولی اور اس میںسے دو لال نوٹ نکال کر اس کی ساری پریشانی ہوا ہوگئی۔ اب اس کے چہرے پر بے انتہاخوشی پھیل چکی تھی۔
’’یہ دیکھو فاطمہ!‘‘ اس نے دایاں ہاتھ اس کی جانب بڑھایا۔
’’ارے یہ کہاں سے آئے ؟‘‘ وہ حیران اور پھر خوش ہوئی۔‘‘
مجھے یاد ہی نہیں تھا۔ دراصل میں ہر مہینے صدقہ نکالتی ہوں اور صدقے کے پیسے دس دس رو پے جمع کرکے ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو کسی ضرورت مند کو دے دیتی ہوں اور دیکھو، میں بالکل بھول گئی تھی کہ یہ پیسے ہر وقت میرے بیگ میں ہی ہوتے ہیں۔‘‘ وہ خوشی سے بتارہی تھی اور فاطمہ خاموشی سے اس کی جانب دیکھتی رہ گئی۔
’’سچ کہا گیاہے، کہ صدقہ ہر بلا کو ٹالتا ہے۔‘‘ ماریہ کو اپنی امی کی بتائی ہوئی نصیحت پر جسے آج یقین آگیا تھا۔
’’چلو چلتے ہیں اب۔‘‘ وہ فاطمہ کاہاتھ پکڑے گیٹ سے باہر جانے لگی۔
بارش ختم ہوگئی تھی مگر اس کے اثرات ابھی باقی تھے۔ خنک ہوا جب تیز ہوتی تو درختوں کے پتے مزید تیزی سے جھومنے لگتے۔ گیلی مٹی کی خوش بو جب نتھنوں سے ٹکراتی تو جسم کا سارا خون جیسے خودہی فلٹر ہوجاتا اور ایک پرکیف سا سکون دل میں اترتا محسوس ہوتا۔ فاطمہ نے پکوڑوں کے لیے آمیزہ تیار کیا اور بینگن کے قتلے نمک مرچ لگاکر رکھے۔ امی نے چائے کا پانی چولہے پر چڑھادیا۔ کچھ دیر دادی کے ساتھ مل کر پکوڑوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد اس نے دادی کو حسبِ معمول چاولوں کی مٹھی بھرتے دیکھا تو آگے بڑھ کر پانی بھرا جگ مٹی کے کٹورے میں انڈیلا۔ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کٹا کٹ کرتی مرغیوں کے آگے ڈالنے لگی۔ دادی تو دادی ، امی بھی پہلے اس کی اس حرکت کو دیکھ کر حیران ہوئیں پھر سر جھٹک کر مسکرا دیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

Read Next

جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!