بوڑھے آدمی کا خواب — محمد جمیل اختر
بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آئی تھی۔ اِس سے پہلے کہ میں آپ کو اِس تبدیلی کے بارے میں کچھ بتائوں، اِس سے پہلے صادق حسین کی سابقہ زندگی کے بارے
بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آئی تھی۔ اِس سے پہلے کہ میں آپ کو اِس تبدیلی کے بارے میں کچھ بتائوں، اِس سے پہلے صادق حسین کی سابقہ زندگی کے بارے
رات کے دو بج رہے تھے۔ ہر طرف سناٹا چھایاہوا تھا۔ عارف سڑک کے کنارے پیدل چل رہا تھا، پوری دنیا سے بے خبر اور تنہا ۔ وہ ہر چیز کی امید کھو بیٹھا تھا۔
بیگم مہرین اپنے سٹنگ روم کے قالین پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان کے سامنے مختلف ڈیزائنرز کی exclusive rangeکے دس سوٹ رکھے ہوئے تھے۔ انھیں یہ سوٹ سلوانے کے لیے اپنے درزی کو دینے
ناشتے کی ٹرے میں نے بہت نفاست سے ’سیٹ‘ کی۔ٹوسٹ کے کنارے ویسے ہی کاٹے جیسے صاحب اور بیگم صاحبہ کو پسند تھے۔ صاحب اور بیگم صاحبہ صرف ’امپورٹڈ‘ مکھن کھانا پسند کرتے ہیں۔اس بات
دوسرے مسافر نے جواب دیا۔ وہ شخص قہقہہ لگا کر ہنسا پھر اس نے رکھائی سے پوچھا: ’’جواردار صاحب! آپ کو اپنے والد گرامی کا نام تو یاد ہو گا؟‘‘ ’’کیوں نہیں؟‘‘ دوسرے مسافر نے
ماہرہ کی بڑھتی ہوئی سستی دیکھ کر گھر والے بھی حیران ہورہے تھے، وہ خود بھی اسی سوچ میں گم رہتی کہ اس طرح کئی دن گزر گئے۔ ٭…٭…٭ وہ صبح نہا کر نکلا اور
زارا نے پھر پھول کھلائے۔ ’’تم نے۔ ابھی۔ ابھی۔‘‘ نجیب ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا۔ لفظوں کی بنت بدلی، لہجے کے انداز بدلے، خیال بدلے، فاصلے سمٹ گئے۔ نجیب سب کچھ بھول گیا۔ اگر
امی بہت خفا تھیں ابو تو خیر کبھی کسی معاملے میں بولتے ہی نہیں تھے۔ پھر بھی حیران ہوئے۔ ’’جنت بیٹی۔ مجھے ایسا لگتا ہے تم پریشان ہو۔‘‘ رحمن صاحب اس وقت اپنی سٹڈی میں
Alif Kitab Publications Dismiss