محبوب چہرہ — محمد جمیل اختر
ہاں ہر چہرہ کسی کا محبوب ہوتا ہے یہ بات آپ نے ضرور سن رکھی ہوگی۔ سب کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ کیا یہ واقعی سچ
ہاں ہر چہرہ کسی کا محبوب ہوتا ہے یہ بات آپ نے ضرور سن رکھی ہوگی۔ سب کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ کیا یہ واقعی سچ
استاد منگو موجودہ سوویت نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔ اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اسی لیے اس نے روس والے بادشاہ
گڑیا اور احزم آئے تھے لڈو لے کر۔ اس نے ڈانٹ کر بھگادیا۔ فرحت کھانے کی ٹرے لے کر آئی اس نے انکار کردیا۔ رشنا مامی کی بھانجی کی شادی تھی وہ ساری شاپنگ دکھاتی
ماموں نے کچھ دن پہلے ہی نئی شکاری بندوق خریدی تھی۔ ان کے دوست یار بھی آتے رہتے تھے۔ وہ نانا کے زمانے والی بندوق تو اب بہت پرانی اور خراب ہوچکی تھی۔ جرار نے
آواز تو اسی کی ہے۔ پچھلا نمبر تو بلاک کردیا تھا اب یہ نئے نمبر سے۔ اف بری مصیبت۔ وہ جھنجھلایا اور اسی عالم طیش میں کہہ گیا۔ مر جاؤ شوق سے ۔ اور ادھر
”آپ کو شرم نہیں آتی فلک۔” سارہ نے جیسے ہی فلک کو کمرے میں آتے دیکھا پورے دن کی بھڑاس اس پر نکال دی۔ ”میں آپ کی ماں کی خدمت کرتی رہوں ادھر اور آپ
”تو پھر کیا سوچا برخوردار!” راشد علی نے فلک کو دیکھتے ہوئے محبت سے پوچھا۔ ”کس بارے میں ابا۔” فلک نے سرسری سے انداز میں پوچھا اور موبائل میںلگا رہا۔ ”ہم سوچ رہے تھے تمہاری
ہر انسان فارغ وقت میں کچھ نا کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جب اسے فارغ وقت میں اس کا من پسند کام مل جائے تو وہ خوشی سے جھومنے بلکہ ہوا میں اُڑنے لگتا ہے۔ ہماری
Alif Kitab Publications Dismiss