آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

اوول آفس سے ملحقہ ایک چھوٹے سے کمرے میں پروٹوکول آفیسر کی رہنمائی میں داخل ہوتے ہوئے سالار سکندر کے انداز میں اس جگہ سے واقفیت کا عنصر بے حد نمایاں تھا۔ وہ بڑے مانوس انداز میں چلتے ہوئے وہاں آیا تھا اور اس کے بعد ہونے والے تمام Rituals سے بھی واقف تھا۔ وہ یہاں کئی بار آچکا تھا، کئی وفود کا حصہ بن کر… لیکن یہ پہلاموقع تھا جب وہ وہاں تنہا بلایا گیا تھا۔
اسے بٹھانے کے بعد وہ آفیسر اندرونی دروازے سے غائب ہوگیا تھا۔ وہ پندرہ منٹ کی ایک ملاقات تھی، جس کے اہم نکات وہ اس وقت ذہن میں دہرا رہا تھا۔ وہ امریکہ کے کئی صدور سے مل چکا تھا، لیکن وہ صدر جس سے وہ اس وقت ملنے آیا تھا، خاص تھا۔ کئی حوالوں سے…
وال کلاک پر ابھی 9:55ہوئے تھے۔
صدر کے اندر آنے میں پانچ منٹ باقی تھے۔ اس سے پہلے 9:56 پہ ایک ویٹر اس کو پانی پیش کرکے گیا تھا۔ اس نے گلاس اٹھا کر رکھ دیا تھا۔ 9:57 پہ ایک اور اٹینڈنٹ اسے کافی سرو کرنے آیا تھا۔ اس نے منع کردیا۔ 9:59 پہ اوول آفس کا دروازہ کھلا اور صدر کی آمد کا اعلان ہوا۔ سالار اٹھ کھڑا ہوا۔
اوول آفس کے دروازے سے اس کمرے میں آنے والا صدر، امریکہ کی تاریخ کا کمزور ترین صدرتھا۔ وہ 2030ء کا امریکہ تھا۔ بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل سے دوچار ایک کمزور ملک … جس کی کچھ ریاستوں میں اس وقت خانہ جنگی جاری تھی۔کچھ میں نسلی فسادات… اور ان سب میں امریکہ کا وہ پہلا صدر تھا جس کی کابینہ تھنک ٹینکس میں مسلمانوں اور یہودیوں کی تعداد اب برابر ہوچکی تھی۔ اس کی پالیسیز کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ بھی اندرونی خلفشار کا شکار تھی لیکن یہ وہ مسائل نہیں تھے جن کی وجہ سے امریکہ کا صدر اس سے ملاقات کررہا تھا۔
امریکہ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی بینکنگ بحران کے دوران اپنی بین الاقوامی پوزیشن اور ساکھ کو بچانے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہا تھا اور SIF سربراہ سے وہ ملاقات ان ہی کوششوں کا ایک حصہ تھی۔ ان آئینی ترامیم کے بعد جو امریکہ کو اپنے ملک کی حیثیت کو مکمل طور پر ڈوبنے سے بچانے کے لئے کرنی پڑی تھیں۔
اپنی تاریخ کے اس سے بڑے مالیاتی بحران میں جب امریکہ کی اسٹاک ایکسچینج کریش کرگئی تھی، اس کے بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ ہورہے تھے۔ ڈالر کی ویلیو کو کسی ایک جگہ روکنا مشکل ہوگیا تھا اور مسلسل گرتی ہوئی اپنی کرنسی کو استحکام دینے کے لئے امریکہ کو تین مہینے کے دوران تین بار اس کی ویلیو خود کم کرنی پڑی تھی۔ صرف ایک ادارہ تھا جو اس مالیاتی بحران کو جھیل گیا تھا۔ لڑکھڑانے کے باوجود وہ امریکہ کے بڑے مالیاتی اداروں کی طرح زمین بوس نہیں ہوا تھا، نہ ہی اس نے ڈاؤن سائزنگ کی تھی، نہ بیل آؤٹ پیکجز مانگے تھے۔ اور وہ SIF تھا۔ پندرہ سال میں وہ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے طور پر اپنی شان دار ساکھ اور نام بناچکا تھا اور امریکہ اور بہت سے دوسرے چھوٹے ملکوں میں وہ بہت سے چھوٹے بڑے اداروں کو ضم کرکے اپنی چھتری تلے لاچکا تھا اور وہ چھتری مغربی مالیاتی اداروں کی شدید مخاصمت اور مغربی حکومتوں کے سخت ترین امتیازی قوانین کے باوجود پھیلتی چلی گئی تھی۔




پندرہ سالوں میں SIFنے اپنی بقا اور ترقی کے لئے بہت ساری جنگیں لڑی تھیں اور ان میں سے ہر جنگ چومکھی تھی لیکن SIFاور اس سے منسلک افراد ڈٹے رہے تھے اور پندرہ سال کی اس مختصر مدت میں مالیاتی دنیا کا ایک بڑا مگرمچھ اب SIF بھی تھا جو اپنی بقا کے لئے لڑی جانے والی ان تمام جنگوں کے بعد اب بے حد مضبوط ہوچکا تھا۔
یورپ اور ایشیا اس کی بڑی مارکیٹیں تھیں لیکن یہ افریقہ تھا جس پر SIF مکمل طور پر قابض تھا۔ وہ افریقہ جس میں کوئی گورا 2030ء میں SIF کے بغیر کوئی مالیاتی ٹرانزیکشن کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ افریقہ SIF کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ سالار سکندر کے ہاتھ میں تھا، جسے افریقہ اور اس کے لیڈر ز نام اور چہرے سے پہچانتے تھے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں صرف سالار کا ادارہ، وہ واحد ادارہ تھا جو افریقہ کے کئی ممالک میں بدترین خانہ جنگی کے دوران بھی کام کرتا رہا تھا اور اس سے منسلک وہاں کام کرنے والے سب افریقی تھے اور SIF کے مشن اسٹیٹمنٹ پر یقین رکھنے والے… جو یہ جانتے تھے جو کچھ SIF ان کے لئے کررہا تھا اور کرسکتا تھا، وہ دنیا کا کوئی اور مالیاتی ادارہ نہیں کرسکتا تھا۔
SIF افریقہ میں ابتدائی دور میں کئی بار نقصان اٹھانے کے باوجود وہاں سے نکلا نہیں تھا، وہ وہیں جما اور ڈٹا رہا تھا اور اس کی وہاں بقا کی بنیادی وجہ سود سے پاک وہ مالیاتی نظام تھا جو وہاں کی مقامی صنعتوں اور صنعت کاروں کو نہ صرف سود سے پاک قرضے دے رہا تھا، بلکہ انہیں اپنے وسائل سے اس انڈسٹری کو کھڑا کرنے میں انسانی وسائل بھی فراہم کررہا تھا۔
پچھلے پندرہ سالوں میں SIF کی افریقہ میں ترقی کی شرح ایک اسٹیج پر اتنی بڑھ گئی تھی کہ بہت سے دوسرے مالیاتی اداروں کو افریقہ میں اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے SIF کا سہارا لینا پڑا تھا۔
سالار سکندر سیاہ فاموں کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا اور اس کی یہ پہچان بین الاقوامی تھی۔ افریقہ کے مالیاتی نظام کی کنجی SIF کے پاس تھی اور سالار سکندر کے اس دن وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ امریکہ ورلڈ بینک کو دیئے جانے والے فنڈز میں اپنا حصہ ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تھا اور ورلڈ بینک کو فنڈز کی فراہمی میں ناکام رہنے کے بعد اس سے سرکاری طور پر علیحدگی اختیارکررہاتھا۔ ورلڈ بینک اس سے پہلے ہی ایک مالیاتی ادارے کے طور پر بری طرح لڑکھڑا رہا تھا۔ یہ صرف امریکہ نہیں تھا جو مالیاتی بحران کا شکار تھا۔ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک بھی اسی کساد بازاری کا شکار تھے اور اس افراتفری میں ہر ایک کو صرف اپنے ملک کی معیشت کی پروا تھی۔ اقوام متحدہ سے منسلک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی اقتصادیات پر قابض رہنا اب نہ صرف ناممکن ہوگیا تھا، بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آئے ہوئے مالیاتی بحران کے بعد اب یہ بے کار بھی ہوگیا تھا۔
ورلڈ بینک اب وہ سفید ہاتھی تھا جس سے وہ ساری استعماری قوتیںجان چھڑانا چاہتی تھیں اور کئی جان چھڑا چکی تھیں۔ اقوام متحدہ کا وہ چارٹر جو اپنے ممبران کو ورلڈ بینک کے ادارے کو فنڈ ز فراہم کرنے کا پابند کرتا تھا۔ اب ممبران کے عدم تعاون اور عدم دلچسپی کے باعث کاغذ کے ایک پرزے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اقوام متحدہ اب وہ ادارہ نہیں رہا تھا جو بین الاقوامی برادری میں سیکڑوں سالوں سے چلے آنے والے ایک ہی مالیاتی نظام میں پروئے رہنے پر مجبور کرسکتا۔
دنیا بدل چکی تھی اور گھڑی کی سوئیوں کی رفتار کے ساتھ مزید بلدتی جارہی تھی اوراس رفتار کو روکنے کی ایک آخری کوشش کے لئے امریکہ کے صدر نے SIF کے سربراہ کو وہاں بلایا تھا۔
ایوان ہاکنز نے اندر داخل ہوتے ہوئے اپنے اس پرانے حریف کو ایک خیر مقدمی مسکراہٹ دینے کی کوشش کی جو اس کے استقبال کے لئے مؤدبانہ اور بے حد باوقار انداز میں کھڑا تھا۔ سیاست میں آنے سے پہلے ایوان ایک بڑے مالیاتی ادارے کا سربراہ رہ چکا تھا۔ سالار سکندر کے ساتھ اس کی سالوں پرانی واقفیت بھی تھی اور رقابت بھی۔ SIF نے امریکہ میں اپنی تاریخ کا پہلا بڑا نضمام اس کے ادارے کو کھا کر کیا تھا۔ اور اس انضمام کے بعد ایوان کو اس کے عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔ وہ آج امریکہ کا صدر تھا، لیکن وہ ناکامی اور بدنامی آج بھی اس کے ریکارڈ میں ایک داغ کے طور پر موجود تھی۔ یہ ایوان کی بدقسمتی تھی کہ اتنے سالوں کے بعد وہ اسی پرانے حریف کی مدد لینے پر ایک بار پھر مجبور ہوا تھا۔ وہ اس کے دورِ صدارت میں اسے دھول چٹانے آن پہنچا تھا۔ یہ اس کے احساسات تھے۔ سالار کے نہیں۔ وہ وہاں کسی اور ایجنڈے کے ساتھ آیا تھا۔ اس کا ذہن کہیں اور پھنسا ہوا تھا۔
’’سالار سکندر…‘‘ چہرے پر ایک گرم پر جوش مسکراہٹ کا نقاب چڑھائے، ایوان نے سالار کا استقبال تیز رفتاری سے اس کی طرف بڑھتے ہوئے یوں کیا تھا جیسے وہ حریف نہیں رہے تھے، بہترین دوست تھے، جو وائٹ ہاؤس میں نہیں کسی گالف کورس پر مل رہے تھے۔ سالار نے اس کی خیر مقدمی مسکراہٹ کا جواب اتنی ہی خوش دلی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے دیا تھا۔ دونوں کے درمیان رسمی کلمات کا تبادلہ ہوا۔ موسم کے بارے میں ایک آدھ بات ہوئی، جو اچھا تھا اور ا س کے بعد دونوں اپنی اپنی نشست سنبھال کر بیٹھ گئے تھے۔ وہ ون آن ون ملاقات تھی۔ کمرے کے دروازے اب بند ہوچکے تھے اور وہاں ان دونوں کا اسٹاف نہیں تھا اور اس ون آن ون ملاقات کے بعد ان دونوں کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس تھی جس کے لئے اس کمرے سے کچھ فاصلے پر ایک اور کمرے میں بیٹھے دنیا بھرکے صحافی بے تابی سے منتظر تھے۔
اس ملاقات سے پہلے ان دونوں کی ٹیم کے افراد کئی بار آپس میں مل چکے تھے۔ ایک فریم ورک وہ ڈسکس بھی کرچکے تھے اور تیار بھی… اب اس ملاقات کے بعد باضابطہ طور پر وہ دونوں وہ اعلان کرتے جس کی بھنک میڈیا کو پہلے ہی مل چکی تھی۔
امریکہ اب ورلڈ بینک کے ذریعے نہیں SIF کے ذریعے دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں گھسنا چاہتا تھا۔ خاص طور پر افریقہ میں اور اس کے لئے وہ ورلڈ بینک سے باضابطہ علیحدگی اختیارکررہا تھا مگر اس کے سامنے مسئلہ صرف ایک تھا۔ امریکہ کا ایجنڈا SIF کے ایجنڈے سے مختلف تھا اور اس ملاقات میں سالار سکندر کو غیر رسمی انداز میں… آخری بار ان امریکی مفادات کے تحفظ کی یاد دہانی کروائی تھی۔ امریکہ SIF کی ٹیم کے بہت سارے مطالبات مان کر اس فریم ورک پر تیار ہوا تھا۔ یہ وہ امریکہ نہیں رہا تھا جو بندوق کی نوک پر کسی سے کچھ بھی کرواسکتا تھا۔ یہ انتشار کا شکار ایک کھوکھلا ہوتا ہوا ملک تھا جو بات سنتا تھا۔ مطالبات مانتا تھا اور اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹ جاتا تھا یا پھر آخری حربے کے طور پر اپنے مفادات کی خاطر وہ کرتا تھا جو اس بار بھی اس میٹنگ کے اچھے یا برے نتیجے کے ساتھ پہلے سے مشروط تھا۔
میٹنگ کا نتیجہ ویسا ہی نکلا تھا جیسی ایوان کو توقع تھی۔ سالار سکندر کو SIF کے ایجنڈے کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں تھا۔ نہ ہی امریکی حکومت کے ایجنڈے کے حوالے سے… وہ امریکی حکومت کی مدد کرنے پر تیار تھا۔ اس فریم ورک کے تحت جو اس کی ٹیم نے تیار کیا تھا، لیکن SIF کو امریکہ کا ترجمان بنانے پر تیار نہیں تھا۔ اس نے ایوان کی تجویز کا شکریہ کے ساتھ رد کردیا تھا۔ دو مگرمچھوں کے درمیان دشمنی ہوسکتی تھی، دوستی نہیں مگر دشمنی کے ساتھ بھی وہ ایک ہی پانی میں رہ سکتے تھے۔ بڑے محتاط اور پرُامن طریقے سے، اپنی اپنی حدود میں، اور اس نے ایوان کو بھی یہی مشورہ دیا تھا جس سے ایوان نے اتفاق کیا تھا۔ سالار سکندر سے انہیں جیسے جواب کی توقع تھی انہیں ویسا ہی جواب ملا تھا۔
SIF کو اب ایک نئے سربراہ کی ضرورت تھی جو زیادہ لچک دار رویے کا حامل ہوتا اور زیادہ سمجھدار بھی… سالار سکندر میں ان دونوں چیزوں کی اب کچھ کمی ہوگئی تھی۔ یہ ایوان کا اندازہ تھا۔
سی آئی اے کو SIF کے نئے سربراہ کے بارے میں تجاویز دینے سے پہلے SIF کے پرانے سربراہ کو ہٹانے کے لئے احکامات دے دیئے گئے تھے اور یہ اس میٹنگ کے بعد ہوا تھا۔
اس سے پہلے ایوان نے سالار سکندر کے ساتھ اس پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی، جس میں امریکہ نے باقاعدہ طور پر ملک میں ہونے والے مالیاتی بحران سے نپٹنے کے لئے نہ صرف SIF کی مدد لینے کا فیصلہ کیا تھا بلکہ SIF کے ساتھ طے پانے والے اس فریم ورک کا بھی اعلان کیا تھا، جس کی منظوری صدر نے بے حد دباؤ کے باوجود دے دی تھی۔
ایوان ہاکنز کو اس اعلان کے وقت ویسی ہی تضحیک محسوس ہورہی تھی جتنی اس نے اس وقت محسوس کی تھی، جب اس کے مالیاتی ادارے کا انضمام SIF کے ساتھ ہوا تھا اور جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے فارغ ہوگیا تھا۔ اسے یقین تھا تاریخ اس بار اپنے آپ کو کچھ مختلف طریقے سے دہرانے والی تھی۔ اس دفعہ اسکرین سے غائب ہونے والا اس کا پرانا حریف تھا، وہ نہیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

Read Next

ورثہ — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!