اِک فیصلہ — حنادیہ احمد
’’جو وقت گزر جاتا ہے ارسلان وہ پھر لوٹ کے نہیں آتا اور ماضی کو بھلا کے آگے بڑھ جانا ہی عقل مندی ہے۔ جو میری قسمت میں لکھا تھا میں نے اسے خوش دلی
’’جو وقت گزر جاتا ہے ارسلان وہ پھر لوٹ کے نہیں آتا اور ماضی کو بھلا کے آگے بڑھ جانا ہی عقل مندی ہے۔ جو میری قسمت میں لکھا تھا میں نے اسے خوش دلی
وہ بڑا ہلکا وجود لئے امریکہ واپس آئی تھی اور امریکہ پہنچ کر اس نے اپنا نمبر آن کیا تھا اور اس کا فون یک دم سارے رشتوں سے جاگنے لگا تھا۔ پیغامات کا انبار
’’اور کتنے دوست ہیں تمہارے؟‘‘ ’’ہمارا صرف چار دوستوں کا گروپ ہے جس میں، میں صارم ، سمیر اور زوہیب ہیں اور آج کل ہم چاروں صرف انجوائے کر رہے ہیں۔‘‘ عظام نے کرسی پر
رات کی سیاہی صبح کے اجالوں سے جدا ہورہی تھی۔ روشن بیگم نے نماز پڑھنے کے بعد مٹی کے کٹورے میں پانی بھر کر رکھا روٹی کے ننھے ننھے ٹکڑے کرکے فرش پر پھینکتے ہوئے
’’ہاں!‘‘ اس یک لفظی جواب نے جبریل کو ایک بار پھر کچھ بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، وہ اب اسے نہیں دیکھ رہی تھی، اس کافی کے مگ سے اٹھتی بھاپ کو دیکھ رہی
لاس اینجلس کا موسم بے حد خوشگوار تھا۔ چمکیلی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور شہر کے گرد و پیش بکھری چھوٹی بڑی پہاڑیاں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہری ہو چکی تھیں۔ نذیر
’’رنگ خوب صورت ہے پر نقلی ہے۔‘‘ حمین نے ڈنر ٹیبل پر بیٹھتے، فش اور چپس کھاتے ہوئے ڈبیا کو رئیسہ کی طرف سرکایا، جو سلاد کا ایک پیالہ کھاتے ہوئے اس کی بات سن
’’میں اس سال میڈیکل میں چلی جاؤں گی۔ میرا ایڈمیشن ہوگیا ہے۔‘‘ دوران گفتگو جبریل کے سوال پر یک دم اس نے بتایا۔ ’’فنٹاسٹک۔‘‘ ا س نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔ لیکن یہ نہیں بتایا
Alif Kitab Publications Dismiss