ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)
اسٹڈی کا دروازہ بند ہو گیا تھا۔ بند دروازے نے اس کے اندر بہت سے دروازے کھول دیے تھے جن سے نظر آنے والے راستے اور منظر اس کے لیے ناآشنا نہیں تھے۔ اس نے
اسٹڈی کا دروازہ بند ہو گیا تھا۔ بند دروازے نے اس کے اندر بہت سے دروازے کھول دیے تھے جن سے نظر آنے والے راستے اور منظر اس کے لیے ناآشنا نہیں تھے۔ اس نے
”اس لیے میں نے انھیں سب کچھ بتا دیا۔ گھر خرید کر گفٹ کرنے کے بعد… اور… اس کے بعد جو ایک ہفتہ میں نے جرمنی میں گزارا وہ میری زندگی کا سب سے تکلیف
ہماری شادی کو ایک سال ہونے والا تھا اور میں مہر کے عشق میں مکمل طور پر گرفتار ہو چکا تھا… اس کی خاموشی اب بھی ویسی ہی تھی مگر میں نے اسے اس کی
”مگر تم نے فون پر اس کا ذکر کیوں نہیں کیا؟” صوبیہ نے شکوہ کیا۔ ”مجھے یاد نہیں رہا۔” میں نے بے خیالی میں کہا۔ ان تینوں نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا۔ ”تمھیں یہ
آسماں کو چھوتے برف پوش پہاڑی سلسلے کے بیچ زندگی مصلو ب تھی، کچھ ایسے کہ سانس تک گروی معلوم ہوتی تھی ۔صدیوں سے کھڑے بلندو بالا پہاڑی سلسلے بے شمار قبروں کے امین تھے۔
”اری او بے شرم، بے حیا، بدلحاظ اپنے بہنوئی پر ایسا گھٹیا الزام لگاتے ہوئے تجھے شرم نہ آئی، تجھے اپنی بہن سمجھتا ہے کلموہی ذرا سی غلطی سے اس کا ہاتھ تجھے چھو گیا
اس دن وہ اچھرہ بازار میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی دکان پر گئی تھی۔ ”مجھے وہ سوٹ دے دیں جو بہت سستا ہو پھر بھی ہر کوئی اس میں نقص نکال کر ناپسند کرتا
آج کل گھر میں ایک ہی”ہاٹ ٹاپک” تھا اور وہ تھا ارسل بھائی کی شادی، بھاوج ہونے کے ناطے مجھ پر جیٹھانی ڈھونڈنے کا دباؤ تھوڑا زیادہ تھا لیکن اب یہ دباؤ میرے کاندھوں اور
Alif Kitab Publications Dismiss