وہ بلڈنگ صابر، تنویر، مجاہد اور خود اس جیسے ایشیائی مردوں اور عورتوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہاں اسی طرح ڈربے نما اپارٹمنٹس میں اسی طرح مختلف شفٹوں میں درجنوں لوگ رہتے تھے۔ جن کی
محمدۖہمارے بنتِ محمد رفیق (کراچی) محبت کی معراج پالینے والے نمازوں کا تحفہ ہیں وہ لانے والے سراپا صداقت سراپا امانت امین اور صادق وہ کہلانے والے نبوت کے خاتم رسالت کے خاتم وہ ختم
نعت رسولِ مقبولۖ سید عطاالمصطفیٰ اے کاش کبھی ہو جو رسائی ترے در کی کرتا رہوں دن رات گدائی ترے در کی آنکھوں کے لیے سرمہ ِ نایاب تھا درکار سو خاک مدینے سے منگائی
آؤ کھانا کھائیں نظیر فاطمہ آؤ بچو! کھانا کھائیں مل کر دسترخوان بچھائیں اپنے ہاتھوں کو دھولیں شروع میں بسم اللہ پڑھ لیں پلیٹ میں تھوڑا سالن لیں اور نوالے چھوٹے لیں دائیں ہاتھ سے
رات کو دیکھوں! صوبیہ اطہر رات کو دیکھوں، جی للچائے کوئی تارا ہاتھ میں آئے امی بولیں بیٹے پیارے تم بھی تو ہو میرے تارے پُھولے گال، چمکتی آنکھیں خُوش بو، خُوش بو، مہکی سانسیں
ہمیں اُن سے عقیدت ہے نوشین فاطمہ عبدالحق ہے خوش قسمت وہ وادی جس کا مکہ نام ہے بچو! وہاں کا ذرّہ ذرہ قابلِ اکرام ہے بچو! اسی وادی میں پیدائش ہوئی حضرت محمدۖ کی
کمرے میں بیٹھے ہوئے تینوں مرد پلکیں جھپکائے بغیر سانس روکے بے حس وحرکت سامنے اسکرین پر ابھرتے بدلتے اور غائب ہوتے اس چہرے کو دیکھتے رہے۔ اسکرین پر آخری تصویر آکر ٹھہر گئی تھی۔
”رنجیت سنگھ کے ساتھ ہم اپنے چھورے بھی بھیج دیوے گیں۔ رات کے کھانے کی دیری ہے بس اب۔” پتھر کے میزسمیت سبھی بے جان چیزوں نے چا ہا کہ وہ سننے کی صلاحیت سے