گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی
’’غیرت کے نام پر‘‘اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میرا جسم ساکت ہوگیا۔ ’’کک کیوں؟‘‘میرا چلتا قلم رک گیا تھا۔ ’’آپ کے خیال
’’غیرت کے نام پر‘‘اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میرا جسم ساکت ہوگیا۔ ’’کک کیوں؟‘‘میرا چلتا قلم رک گیا تھا۔ ’’آپ کے خیال
رات کا پچھلا پہر اور درد اور کرب میں ڈوبی بھیانک چیخیں ماحول کو اور بھی وحشت ناک بنا دیتی تھیں۔ دل اتنی زور زور
آنکھیں کھولتے ہی اس کا پالا گھپ اندھیرے اور سیلن زدہ بو سے پڑا تھا اور یہ عجیب بات تھی کہ پہلی بار اندھیرے میں
پولیس والوں کی بھی عجیب قسمت ہوتی ہے۔ ہر شخص امن و امان اور سلامتی کی دعا مانگتا ہے، مگر پولیس کے محکمے سے تعلق
دھیمی رفتار سے چلتی ٹھنڈی ہوا کے دوش پر پیپل کی لچک دار شاخیں سُرور کی سی کیفیت میں جھوم رہیں تھیں جس کی وجہ
رات کے پچھلے پہر وہ اوپری منزل کی جانب بڑھتا ہو ا ہر چیز کو آگے پیچھے اوپر نیچے سے یوں ٹٹول رہا تھا جیسے
اس کی سانس رُک رُک کر چل رہی تھی۔ سفید چادر ٹانگوں پر پڑی تھی۔ چہرے پر موت کی زردی بند آنکھوں کے نیچے سے
’’یہ مقیت کون ہے؟‘‘ حور عین نے اپنا جھکا ہوا سر اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں دروازے کے عین درمیان میں کھڑا سعدی اُس سے
مریم نے آفس کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ صبح کی تیز بارش، اب ہلکی سی پھوار کی شکل دھار چکی تھی۔ امریکا کے شہر
میرا بھائی سامی جو مجھ سے عمر میںنوسال چھوٹا تھااس سال نیو ایئر منانے کی ضد کر رہا تھا- میری ماما اس کو سمجھانے کی
Alif Kitab Publications Dismiss