![](https://alifkitab.com/wp-content/uploads/2023/11/versa.jpg)
ورثہ — ارم سرفراز
لاس اینجلس کا موسم بے حد خوشگوار تھا۔ چمکیلی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور شہر کے گرد و پیش بکھری چھوٹی بڑی پہاڑیاں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہری ہو چکی تھیں۔ نذیر
لاس اینجلس کا موسم بے حد خوشگوار تھا۔ چمکیلی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور شہر کے گرد و پیش بکھری چھوٹی بڑی پہاڑیاں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہری ہو چکی تھیں۔ نذیر
’’رنگ خوب صورت ہے پر نقلی ہے۔‘‘ حمین نے ڈنر ٹیبل پر بیٹھتے، فش اور چپس کھاتے ہوئے ڈبیا کو رئیسہ کی طرف سرکایا، جو سلاد کا ایک پیالہ کھاتے ہوئے اس کی بات سن
’’میں اس سال میڈیکل میں چلی جاؤں گی۔ میرا ایڈمیشن ہوگیا ہے۔‘‘ دوران گفتگو جبریل کے سوال پر یک دم اس نے بتایا۔ ’’فنٹاسٹک۔‘‘ ا س نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔ لیکن یہ نہیں بتایا
محبت کسی تتلی کے مانند اس کے دل سے اڑ گئی تھی یا شایدکسی غبارے سے ہوا کی طرح نکل گئی تھی۔ وہ شخص جو کبھی میرے لیے تپتی دوپہر میں سڑک پر کھڑا میرے
’’بہو! او بہو، کہاں مر گئی ہے؟‘‘ زینب رشتے والی نے کمرے سے ہانک لگائی۔ اس وقت وہ شیشے کے سامنے تیار ہو رہی تھی۔اس نے گہرے سرخ رنگ کی لپ سٹک اور پھر سرمے
’’اب میرا نام ایرک نہیں عبداللہ ہے۔‘‘ ایرک نے اپنا جملہ اسی سنجیدگی سے دہرایا تھا۔ ’’کس نے بدلا ہے تمہارا نام؟‘‘ عنایہ بھی ماں کی طرح دنگ تھی۔ ’’میں نے خود۔‘‘ ایرک نے فخریہ
پلک جھپکتے دو مہینے گزر گئے۔ جب ہمارے واپس آنے کا وقت ہوا تو عادل نے ایک رات پہلے مجھے کہا: ’’ماہا! میں اب یہاں سے جانا نہیں چاہتا، دو مہینے کیسے گزر گئے پتا
میں بچپن ہی سے چوہوں سے شدید خوف زدہ رہتی تھی۔ کبھی کبھار گھر میں کوئی چوہا گھس آتا، تو میں اسے دیکھتے ہی کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتی اور چیخ چیخ کر سارا
Alif Kitab Publications Dismiss