میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد
میں نے اپنے دل میں عزم کیا تھا۔ میں اس گھر کے اندر چلی گئی تھی میرا وجود جیسے آگ میں جل رہا تھا جی چاہ رہا تھا میں اس گھر اور اس کی ہر
میں نے اپنے دل میں عزم کیا تھا۔ میں اس گھر کے اندر چلی گئی تھی میرا وجود جیسے آگ میں جل رہا تھا جی چاہ رہا تھا میں اس گھر اور اس کی ہر
وہ پارک میں اپنے مخصوص بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ معیز نے اسے دور سے دیکھ لیا تھا۔ قدموں کی چاپ پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ معیز کو اس کے چہرے کے تاثرات
اس رات کے بعد وہ دوبارہ کبھی اسٹڈی گئی تھی نہ ولید کے گھر۔ اس نے فری وغیرہ کے پاس بیٹھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ بس اپنے کمرے میں ہی رہتی تھی۔ ”میں سوچ
”اماں ٹھیک سے بیٹھ جاؤ … اماں آ رہی ہے تجھ کو دیکھنے۔ ” سونو بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔ اماں بختے یک دم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ اس نے میز پر
وہ آنکھیں بند کئے بڑبڑائی تھی۔ ثانیہ الجھ گوی تھی۔ ”میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔ آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں؟” ”میرا نام ماریہ جہانگیر ہے۔ ڈاکٹر ماریہ جہانگیر۔ مگر تم مجھے نہیں جانتیں
”تمھیں میرے کردار میں کیا خامی نظر آتی ہے؟” میں نے اس سے پوچھا تھا۔ ”تمھارے اسکینڈلز…” ”میرے اسکینڈلز کی بات مت کرو یہ سب میڈیا کی بلیک میلنگ ہے۔ پتا نہیں کیسی اسٹوریز بنا
وہ دھیمے اور خشک لہجے میں بولی تھی۔ ”اولاد کے لیے فیصلے باپ ہی کرتا ہے۔” ”ماں کیوں نہیں کر سکتی۔ کیا آپ کل مغیث اور دوسرے بیٹوں کی شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب
میں نے زندگی میں پہلی بار ایکٹنگ شروع کر دی۔ میں نے روتے ہوئے اسے فون پر بتایا کہ مجھے احتشام نے اغوا کروایا تھا اور جن لوگوں نے مجھے اغوا کیا تھا، انھوں نے
Alif Kitab Publications Dismiss