تین جنوری بروز منگل (2014ء) میں آج آخری بار اس ہوٹل کی صبح دیکھ رہا تھا ۔میں نے مرتضیٰ کو بتا دیا تھا کہ کل میں واپس چلا جاؤں گا۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑا
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا۔ ائیر ہوسٹس مجھ سے کچھ پوچھ رہی تھی پتا نہیں شاید وہ کچھ کھانے پینے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ میرا ذہن اس کی بات سمجھنے سے
وہ ملنگ چلا جارہا تھا بغیر کوئی صدا لگائے۔ کشکول ہاتھ کی بہ جائے گردن میں لٹک رہا تھا جیسے کوئی طوق پہن رکھا ہو۔ بکھرے ہوئے لمبے گرد سے اٹے بال شانوں تک آرہے
’’فارگاڈسیک مام۔۔۔ مجھے ٹھیک سے ریڈی تو ہونے دیں۔۔ آپ کے لیکچر کے لیے میں الگ سے ٹائم نکال لوں گی جانے سے پہلے۔۔‘‘ بلش آن لگاتی ماہم پلٹ کر غصے سے بولی۔ ’’بیٹا میں
میں امجد عظیم پچھلے بارہ سال سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا ہوں۔ سفر وہ واحد چیز تھی جس سے مجھے کوفت ہوتی تھی اور ہمیشہ سفر سے دور رہنے کی کوشش کی
لوگوں کی نظریں خود پر ٹکتی دیکھ کر اسے ایک عجیب سی کوفت کا احساس ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی نظروں میں اس کے لیے کبھی حقارت ہوتی تو کبھی شرارت، کبھی دکھ ہوتا تو کبھی
ہائے کاش تو کہتا، تاجی دریا میں کود جا میری خاطر تو میں ہنس کر کود جاتی۔۔ اب بھی کودی ہوں پر یہ دریا نہیں آگ ہے۔ روز جلتی ہوں ۔روز مرتی ہوںتیرے ساتھ قدم