الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸
زلیخا اکیڈمی جانے لگی اور دن و رات کا ہر پل پڑھائی میں بتانے لگی۔ حسن اسے اپنی بائیک پر اکیڈمی لے جاتا اور واپس بھی لے آتا۔ وہ خود ازحد مصروف تھا لیکن مصروفیت
زلیخا اکیڈمی جانے لگی اور دن و رات کا ہر پل پڑھائی میں بتانے لگی۔ حسن اسے اپنی بائیک پر اکیڈمی لے جاتا اور واپس بھی لے آتا۔ وہ خود ازحد مصروف تھا لیکن مصروفیت
حسن نے اس کے ہاتھ سے شیشی لے کر کھولی اور اس میں موجود مرہم نما چیز کو انگلی پر لگا کر میز پر اس جگہ پھیرا جسے وہ پہلے کھولنے کی کوشش کررہا تھا۔
زلیخا اور حسن صحن میں بیٹھے تھے۔ حسن نے زلیخا کو صدر صاحب سے ملاقات کا احوال لفظ بہ لفظ سنایا تھا کچھ نہ چھپایا تھا۔ اور اب زلیخا گم صم بیٹھی تھی اور حسن
کیا موت کا جزیرہ، واقعی موت کا جزیرہ ہی تھا؟ کیوں اس خطرناک مجرم کا نام سننے والوں پر لرزہ طاری کر دیتا تھا؟ بیگم جمشید کیوں اتنے آرام سے اتنے خطرناک مجرم کو ناشتا
پہلا حصّہ ”حاجو خان! تم سے ایک کام ہے۔ اس کام کے بدلے میں تمہیں دس ہزار روپے دوں گا۔ کام اتنا مشکل نہیں ہے۔ بس تم وہ چیز لاکر مجھے دے دوگے اور تمہارا
میں کون ہوں….؟ ان کے دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ انسپکٹر جمشید اس وقت گھر میں نہیں تھے۔ محمود فوراً اُٹھا اور دروازے کی طرف چل پڑا۔ دروازہ کھولنے سے پہلے اس نے کہا: ”کون
-1 کیا ماورائی کردار ”ڈریکولا“ واقعی انسانی آبادیوں میں داخل ہوکر انسانی خون چوسنا شروع ہوگئے تھے؟ -2 کیا انسپکٹر جمشید بھی ڈریکولا بن گئے تھے؟ یا فرزانہ نے یہ بات کسی اور
پیچھا کرنے والے پروفیسر داﺅد اور ان کی بیٹی شائستہ ایک دکان سے نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں خریدی ہوئی چیزوں کے بنڈل تھے۔ سڑک کے کنارے ان کی نیلے رنگ کی کار کھڑی تھی۔
Alif Kitab Publications Dismiss