تیسرے دن میں ابھی پبلک ریلیشنز کا پیریڈ اٹینڈ کر کے نکلی ہی تھی کہ اسے کلاس روم کے باہر اپنی مخصوص مسکراہٹ سمیت منتظر پایا۔ سُرخ ٹی شرٹ اور جھاگ جیسی سفید پینٹ پہنے
مبارک پور کی جنازہ گاہ میں بچوں کا بہت رش تھا۔ ظاہرہے کوئی فوت ہوا تھا۔ مگر فوت ہونے والا کون تھا۔۔۔ ؟ جنازہ گاہ میں بچوں کی موجودگی ایک انہونی بات تھی۔ ایک راہ
’’یہ میرا وقت ہے۔ مَیں جیسے بھی گزاروں‘‘ زہیر نے مسکرا کر کہا تو وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ ’’بتائو ضرورت یا عادت؟‘‘ زہیر نے اپنا سوال دہرایا۔ ’’ضرورت بہت بڑی حقیقت ہے۔ معاشی ضرورت،
شنو تو شائد واقعی تارہ سے جان چھڑانا چاہتی تھی سو جو منہ میں آتا بول دیتی….. شنو کا ایسے ہی جلدی جلدی لوگوں سے دل بھر جایا کرتا تھا…. اور کچھ یہ بھی تھا
’’صاحب میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ میں گاڑی لے کر گزر رہا تھا کہ دیکھا ایک ریڑھی سڑک پر آئی ہوئی ہے۔ میں اتر کے آیا اور پیار سے اسے سمجھایا کہ ریڑھی پیچھے
کاروبار بُری طرح خسارے میں جارہا تھا اور بینک سے لئے جانے والا قرضہ ادا کرنے کی مدت ختم ہونے والی تھی جب کہ دوسری طرف سرمایہ لگانے والوں کی ایک بڑی تعداد اس کی
’’دیکھو صغریٰ بہن… آج کل زمانہ بہت نازک چل رہا ہے اور آج کل کی اولاد بے حد چالاک اور تیز ہے۔‘‘ ’’صحیح کہہ رہی ہو رانی… زمانہ بڑا نازک ہو گیا ہے۔‘‘ ایک ٹھنڈی