ابو بہت خوش اور مطمئن ہوگئے تھے اور یوں میرا وہ خرگوش کی رفتار سے بھاگنے والا بھائی راستے میں سوتے سوتے پھر سے جاگ گیا تھا، نئے میدان فتح کرنے کے لیے۔ فاتح تو
”باادب! باملاحظہ! ہوشیار…مس ظرافت کچن کے ہموار پختہ فرش پر قدم دکھ چکی ہیں۔ لہٰذا کوئی بڑا یابچہ آس پاس پھٹکنے نہ پائے ورنہ جنابِ من کپ نہیں تو پلیٹ،پلیٹ نہیں تو ٹرے،ٹرے نہیں تو
کٹہرے میں کھڑی یہ عورت اسے بہت بری لگ رہی تھی۔وہ اسے سزائے موت سنانا چاہتا تھا۔ ہاں سزائے موت! ایک بے وفا عورت کے لیے اس سے کم سزا ہو ہی نہیں سکتی۔ عورت
اگلے دن بیٹھک میں ہمارا نکاح ہو گیا۔ زمیندار نے پیسے کا ڈھیر لگا دیا۔ آپی نے رو کر لوٹا دیا۔ بولی ”سودا نہیں کر رہی،اپنی دھی وداع کر رہی ہوں اور یاد رکھ!یہ خواجہ
میں وہ ”موسمِ گرما” ہوں جسے بچے ‘بوڑھے’ جوان کئی مختلف صورتوں میں یاد کرتے ہیں۔ ان مختلف صورتوں میں سے ایک آئے دن ہونے والی ”لوڈ شیڈنگ” ہے جو میرے لیے ایک سرگرم تنظیم