کچھ دلبرداشتہ سی ہوکر شہر بانو نے اپنی توجہ ونڈوشاپنگ پر مرکوز کرلی۔ ایک شواسٹور کی ونڈو میں لگے ہوئے ایک جوتے نے اس کی نظر اپنی طرف بھٹکائی تھی۔ وہ چلتے چلتے ر ک
نویں انعام یافتہ نظم دادی جان نے دال پکائی سارہ قیوم دادی جان نے دال پکائی امی، ابو، آپا، بھائی ناک بھوں سب نے چڑھائی دادی جان نے دال پکائی کاش بنائی ہوتی چُوری کُنا،
مثال، شیردل کے گھر سے صرف لاہور کے سفر کے دوران ہی روتی نہیں رہی تھی، وہ امریکا کی فلائٹ میں بھی اسی طرح روتی رہی تھی۔ شہربانو کی دھمکیوں، ڈانٹ ڈپٹ، پیار، تسلیوں اور
اس کی آنکھوں میں خوابوں کے مردہ بیج دبے ہوئی تھے جیسے پھولوں کے بیج زمین میں گرتے ہیں اور پھر بہار کے موسم میں اسی جگہ سے اگتے ہیں۔ لیکن اس کی آنکھیں بنجر
”تمہارا جواز قابل قبول نہیں، وہ بالغ اور خود مختار تھی۔ تمہیں زبردستی کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔” ”بیٹی خاندان کی عزت ہوتی ہے جناب، میں اتنا بے غیرت نہیں کہ اسے منہ کالا