
پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴
”آئی سویئر پاپا! مجھے واقعی کچھ پتا نہیں ہے۔ وہ اسے لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔” ”یہ جھوٹ تم کسی اور سے بولنا، مجھے صرف سچ بتاؤ۔” قاسم فاروقی نے ایک بار پھر اسی تند
”آئی سویئر پاپا! مجھے واقعی کچھ پتا نہیں ہے۔ وہ اسے لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔” ”یہ جھوٹ تم کسی اور سے بولنا، مجھے صرف سچ بتاؤ۔” قاسم فاروقی نے ایک بار پھر اسی تند
”ایسا ہوچکا ہے۔” ”کیا ثبوت ہے… نکاح نامہ ہے تمہارے پاس؟” وسیم نے اکھڑ لہجے میں کہا۔ ”یہاں نہیں ہے، لاہور میں ہے، میرے سامان میں۔” ”بابا! میں کل لاہور سے اس کا سامان لے
تین گھنٹے قطار میں کھڑا رہنے کے بعد میری باری آنے والی تھی مگر بڑی اماں کب سے آگے کھڑی شناختی کارڈ کا فارم وصول کرنے والی خاتون سے بحث میں مصروف تھیں ۔بڑی اماں
’’باجی چائے۔‘‘ سونیا ٹرے لئے کھڑی رہی۔ ’’لے جاؤ۔ نہیں پینی۔‘‘ ’’آپ نے ناشتہ نہیں کیا۔دوپہر کو کھانا بھی نہیں کھایا۔ شام کو لان میں بیٹھی رو رہی تھیں۔ سب ٹھیک تو ہے باجی۔‘‘ سکول
کچھ دنوں سے وہ جلال اور زینب کے رویے میں عجیب سی تبدیلی دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں اس سے بہت اکھڑے اکھڑے رہنے لگے تھے۔ ایک عجیب سا تناؤ تھا، جو وہ اپنے اور
جویریہ اور رابعہ رات بھر سو نہیں سکیں۔ وہ مکمل طور پر خوف کی گرفت میں تھیں۔ اگر وہ نہ آئی تو کیا ہوگا، یہ سوال ان کے سامنے بار بار بھیانک شکلیں بدل بدل
نسرین کو اندازہ بھی نہ ہوا اور وہ بے اختیار اپنی ماں کو چومنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے سیلاب بہتا جا رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیاہ باہمت پارہی تھی۔ مالکوں
ہفتے میں دو بار عصر کے قریب بچوں کے ساتھ باوردی کوچوان والے تانگے میں سوار ہو کے وہ شاید کلب جاتی ہے۔ کبھی اس نے بال کھلے چھوڑ رکھے ہوتے ہیں تو کبھی انھیں