باپ — (تحریر بجورنسٹرین بجورنسن – مترجم ایس چغتائی)
جس شخص کی یہ سرگزشت ہے وہ اپنے قصبے کا امیر ترین اور بار سوخ دہقان تھا۔ اس کا نام تھورڈا دراس تھا۔ ایک دن وہ اپنے قصبے کے واحد پادری کے دارالمطالعہ میں گیا۔
جس شخص کی یہ سرگزشت ہے وہ اپنے قصبے کا امیر ترین اور بار سوخ دہقان تھا۔ اس کا نام تھورڈا دراس تھا۔ ایک دن وہ اپنے قصبے کے واحد پادری کے دارالمطالعہ میں گیا۔
”جب سے تم گئے سنا ہے معطر دیوانی ہو گئی۔تمہارے چچا نے تو اسی روز درمیان کا دروازہ میخیں ٹھوک کر بند کر دیا تھا اور بڑے دروازے کوپھلانگنے کی میری ہمت نہیں ہوئی۔ لیکن
دوسرے دن صبح ہی صائمہ کی کال موصول ہوئی۔ ”اس نے بیس ہزار دینے کا کہا تھا۔ میں نے ایک ہفتے کا وقت لے لیا ہے۔ کچھ کریں پلیز۔ میری زندگی اب آپ کے ہاتھ
خوشبو کبھی ٹھہر نہیں سکتی۔ وہ لمحہ بہ لمحہ بے چینی سے گھومتی پھیلتی رہتی ہے کیوں کہ اس کی کوکھ میں ایک اسرار ہوتا ہے اور وہ اس اسرار کا پردہ رکھنے کی کوشش
یوں تو کوئی بھی فیس بکی محبت کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور اگر اس کی مخالفت کرنے کی بات کی جائے تو ہم بھی ارسطو اور خلیل جبران کو کہیںپیچھے چھوڑنے پر
صبح کا وقت تھا۔ زویا پوائنٹ میں تھی۔ اُسے آئی ای آر کی لائبریری سے کچھ کتابیں دیکھنی تھیں۔ وہ ابھی اسی سوچ میں گم تھی کہ یہیں اُتر جائے یا ڈیپارٹمنٹ چلی جائے۔ اُس
ٹھنڈی وڈاں گاؤں کے رشک خان کی پوتی گاؤں کی اونچی نیچی پگڈنڈیوں پہ اچھلتی کودتی زمین کی دراڑوں کو دیکھتی جاتی ہے ۔ گہری اور بڑی دراڑیں جنھوں نے زمین کو اندر تک چیر
”محترم یہ کیس واقعی میرے بس سے باہر ہے بلکہ اب تو یہ اس خبیث عامل کے بس میں بھی نہیں رہا کے اس کا توڑکر سکے۔ اب سوائے صبرکے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔”
Alif Kitab Publications Dismiss