![](https://alifkitab.com/wp-content/uploads/2023/10/Saraab.jpg)
سراب — زارا رضوان
’’باجی چائے۔‘‘ سونیا ٹرے لئے کھڑی رہی۔ ’’لے جاؤ۔ نہیں پینی۔‘‘ ’’آپ نے ناشتہ نہیں کیا۔دوپہر کو کھانا بھی نہیں کھایا۔ شام کو لان میں بیٹھی رو رہی تھیں۔ سب ٹھیک تو ہے باجی۔‘‘ سکول
’’باجی چائے۔‘‘ سونیا ٹرے لئے کھڑی رہی۔ ’’لے جاؤ۔ نہیں پینی۔‘‘ ’’آپ نے ناشتہ نہیں کیا۔دوپہر کو کھانا بھی نہیں کھایا۔ شام کو لان میں بیٹھی رو رہی تھیں۔ سب ٹھیک تو ہے باجی۔‘‘ سکول
کچھ دنوں سے وہ جلال اور زینب کے رویے میں عجیب سی تبدیلی دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں اس سے بہت اکھڑے اکھڑے رہنے لگے تھے۔ ایک عجیب سا تناؤ تھا، جو وہ اپنے اور
جویریہ اور رابعہ رات بھر سو نہیں سکیں۔ وہ مکمل طور پر خوف کی گرفت میں تھیں۔ اگر وہ نہ آئی تو کیا ہوگا، یہ سوال ان کے سامنے بار بار بھیانک شکلیں بدل بدل
نسرین کو اندازہ بھی نہ ہوا اور وہ بے اختیار اپنی ماں کو چومنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے سیلاب بہتا جا رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیاہ باہمت پارہی تھی۔ مالکوں
ہفتے میں دو بار عصر کے قریب بچوں کے ساتھ باوردی کوچوان والے تانگے میں سوار ہو کے وہ شاید کلب جاتی ہے۔ کبھی اس نے بال کھلے چھوڑ رکھے ہوتے ہیں تو کبھی انھیں
’’میں خوش ہوں ۔لیکن اگر میں کوئی پرندہ یا پودا ہوتا یا تمہاری طرح قد آور درخت ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔میں مضبوط اور توانا ہوتا۔سارا دن موج مستی کرتا۔مجھے کوئی روکنے ٹوکنے والا نا
ہوا کی سرسراہٹ اور وحشت زدہ سناٹے کو چیرتے ہوئے گھوڑے کے قدموں کی ٹاپ دور دور تک گونج رہی تھی۔ وہ ہر شے بے نیاز اڑتے بالوں کو کاندھے کے ایک طرف ڈالے سرپٹ
”نل میں پانی نہیں آ رہا۔ کیا مصیبت ہے؟ اب منہ کیسے دھوؤں؟” ریحان نے سنک پر کھڑے ہو کر شور مچایا تھا۔چہرے پر صابن ملے وہ بے زار سا کھڑا تھا جب شہلا بالٹی
Alif Kitab Publications Dismiss