’’اور کتنے دوست ہیں تمہارے؟‘‘ ’’ہمارا صرف چار دوستوں کا گروپ ہے جس میں، میں صارم ، سمیر اور زوہیب ہیں اور آج کل ہم چاروں صرف انجوائے کر رہے ہیں۔‘‘ عظام نے کرسی پر
رات کی سیاہی صبح کے اجالوں سے جدا ہورہی تھی۔ روشن بیگم نے نماز پڑھنے کے بعد مٹی کے کٹورے میں پانی بھر کر رکھا روٹی کے ننھے ننھے ٹکڑے کرکے فرش پر پھینکتے ہوئے
’’ہاں!‘‘ اس یک لفظی جواب نے جبریل کو ایک بار پھر کچھ بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، وہ اب اسے نہیں دیکھ رہی تھی، اس کافی کے مگ سے اٹھتی بھاپ کو دیکھ رہی
لاس اینجلس کا موسم بے حد خوشگوار تھا۔ چمکیلی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور شہر کے گرد و پیش بکھری چھوٹی بڑی پہاڑیاں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہری ہو چکی تھیں۔ نذیر
’’رنگ خوب صورت ہے پر نقلی ہے۔‘‘ حمین نے ڈنر ٹیبل پر بیٹھتے، فش اور چپس کھاتے ہوئے ڈبیا کو رئیسہ کی طرف سرکایا، جو سلاد کا ایک پیالہ کھاتے ہوئے اس کی بات سن
’’میں اس سال میڈیکل میں چلی جاؤں گی۔ میرا ایڈمیشن ہوگیا ہے۔‘‘ دوران گفتگو جبریل کے سوال پر یک دم اس نے بتایا۔ ’’فنٹاسٹک۔‘‘ ا س نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔ لیکن یہ نہیں بتایا
’’بہو! او بہو، کہاں مر گئی ہے؟‘‘ زینب رشتے والی نے کمرے سے ہانک لگائی۔ اس وقت وہ شیشے کے سامنے تیار ہو رہی تھی۔اس نے گہرے سرخ رنگ کی لپ سٹک اور پھر سرمے