’’میں اس سال میڈیکل میں چلی جاؤں گی۔ میرا ایڈمیشن ہوگیا ہے۔‘‘ دوران گفتگو جبریل کے سوال پر یک دم اس نے بتایا۔ ’’فنٹاسٹک۔‘‘ ا س نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔ لیکن یہ نہیں بتایا
’’بہو! او بہو، کہاں مر گئی ہے؟‘‘ زینب رشتے والی نے کمرے سے ہانک لگائی۔ اس وقت وہ شیشے کے سامنے تیار ہو رہی تھی۔اس نے گہرے سرخ رنگ کی لپ سٹک اور پھر سرمے
’’اب میرا نام ایرک نہیں عبداللہ ہے۔‘‘ ایرک نے اپنا جملہ اسی سنجیدگی سے دہرایا تھا۔ ’’کس نے بدلا ہے تمہارا نام؟‘‘ عنایہ بھی ماں کی طرح دنگ تھی۔ ’’میں نے خود۔‘‘ ایرک نے فخریہ
پلک جھپکتے دو مہینے گزر گئے۔ جب ہمارے واپس آنے کا وقت ہوا تو عادل نے ایک رات پہلے مجھے کہا: ’’ماہا! میں اب یہاں سے جانا نہیں چاہتا، دو مہینے کیسے گزر گئے پتا
میں بچپن ہی سے چوہوں سے شدید خوف زدہ رہتی تھی۔ کبھی کبھار گھر میں کوئی چوہا گھس آتا، تو میں اسے دیکھتے ہی کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتی اور چیخ چیخ کر سارا
’’میں اس کتاب کو ایڈٹ کروں گی۔‘‘ اس نے جواب دینے کے بجائے دوسری ہی بات کی۔ وہ جیسے کچھ اور محظوظ ہوا۔ ’’یعنی مجھے مومن بنادوگی؟‘‘ ’’وہ زندگی میں نہیں بناسکی تو کتاب میں
’’سبین! اپنے دل میں فضول خدشے نہ پالو۔ خدشے کسی زرخیز پودے کی طرح تیزی سے نشوونما پا کر بد گمانی کی شکل میں تن آور درخت بن جاتے ہیں اور خوشیوں کو لپیٹ میں