جو ملے تھے راستے میں — سما چوہدری

’’نایاب گوہر علی! یہ نام کتنا مکمل ہے۔‘‘
’’ہے نا ؟‘‘وہ نڈھال سا دیوار سے لگا کہہ رہا تھا ۔
’’دیکھو اسد !‘‘ اپنا ہاتھ آگے کیے وہ اسد کو دکھا رہا تھا۔ وہ نام جو مٹ چکا تھا۔ اس کی بہتی آنکھوں کی رواں لہروں سے جو بنا اجازت اُس کے وجود سے لپٹی ماتم کر رہی تھی۔
’’وہ بے مول تھی، پھر بھی میں مول ادا کرنے کو تیار تھا۔ اسے خبر تو تھی میں آوؑں گا۔ پھر وہ کیوں چلی گئی؟ اسد وہ کیوں چلی گئی۔‘‘
’’گوہر! زندگی اسی کا نام ہے۔‘‘ اسد نے اس کے ہاتھ کو تھامے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
’’ہممم…زندگی !‘‘بڑا تمسخر آمیز لہجہ لیے وہ بآواز بلند ہنستا چلا گیا۔ اس کے قہقہے پورے کمرے میں گونج رہے تھے۔ جیسے خالی بند گھر میں اک ذرا سی آواز شور برپا کر دے۔ جیسے خاموش ویرانے میں ہوا کی ذراسی سرسراہٹ خاموشی کو چیرتی ہوئی اپنے ہونے کا احساس دلائے۔ جیسے ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی زور سے پتھر مار دے اور کوئی پانی کی بے چینی کا تماشا دیکھے۔
’’گوہر تمہیں نایاب کہاں ملی تھی ؟‘‘ اسد نے جاننے کی کوشش کی۔نایاب کا نام سن کر وہ بے ساختہ اپنے کمرے کی اس کھڑکی کی طرف لپکا جو آدھی کھلی تھی مگر چاند کی روشنی برابر آرہی تھی۔ اس نے پاس جاکر کھڑکی کا ایک پٹ پکڑ لیا۔
’’وہ وہاں …وہاں وہ… سڑک۔‘‘ اپنی انگلیوں سے اشارہ کرتے وہ بار بار اپنی آستین سے چہرہ صاف کر رہا تھا۔ مسلسل اپنی آنکھوں کو جھپک رہا تھا جیسے کوشش کر رہا ہو کہ منظر بالکل صاف نظر آئے۔ اس دھند کی طرح جو اگر چھا جائے تو اپنی ہی سمت کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ بار بار ہم اپنا ہی شیشہ صاف کرتے ہیں منظر شناسائی کے لیے۔
گوہر بھی اپنی آنکھوں پہ پڑی دھند ہٹا رہا تھا۔
’’وہ مجھے سڑک کے اس کونے میں کھڑی ملی تھی۔ چپ سی اک پھٹی ہوئی چادر میں خود کو ڈھانپ رہی تھی۔ ننگے پاوؑں، چہرے پر بکھرے بال، زرد رنگ کا لباس پہن رکھا تھا جو اِس کے زرد ہوتے چہرے سے خوب مل رہا تھا۔ وہ بار بار اپنے ہونٹوں کو صاف کر رہی تھی جن سے خون رِس رہا تھا۔ سرد ہوتی زمین پر وہ کبھی اپنے دائیں پاوؑں کو اوپر کرتی تو کبھی بائیں کو۔پھر باری باری ہاتھ سے مالش کرتی۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی مگر اس کی پائل کی چھن چھن کسی پرسوز ساز کی طرح میرے خالی وجود میں رچ رہی تھی۔ میرا دل مور بن ناچ رہا تھا ۔ میرا خود پر اختیار ہی نہ تھا۔‘‘ گوہر کی پلکوں پہ ٹھہرے ہزاروں آنسو اپنی باری کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ مانو کب وہ آنکھیں موندے اور کب ظالم برس پڑیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اسد حیران تھا کہ محض چند منٹوں میں کوئی اتنا گہرا مشاہدہ بھی کر سکتا ہے۔ وہ اپنے عزیز دوست کی حالت پر غمگین تھا اور اب حیرت کے سمندر میں غوطہ لگائے اس کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا۔
’’گوہر تم اس کے پاس نہیں گئے ؟ بات نہیں کی؟‘‘اک گہری کرب سے سجی مسکان لیے وہ برملا مخاطب ہوا۔
’’ملا تھا نا، خودبہ خود۔ میرا دل اس کی طرف لپکا اور میرا عشق میری اس عقل کے آڑے آگیا۔ میں بھی ننگے پاوؑں بھاگا تھا۔ مجھے اس کی برابری کرنی تھی۔‘‘ اسد نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
’’مگر گوہر تمہارے پاس تو جوتے تھے۔‘‘
’’ہاں تھے مگر میں کیسے برتری لیتا، کیسے اس سے مقابلہ کرتا؟ عشق کی شان میں گستاخی ہوجاتی پھر؟ تو لوگ کہتے کیسا عاشق ہے رے تو۔ محبوب سے قدم بھی نہ ملا پایا۔ دل ملانا تو دور رہا۔‘‘وہ جذب کے عالم میں بولے جارہا تھا۔
’’جانتے ہو جیسے میں اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میرا دل میرے وجود کا ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ دھڑکن بضد تھی جیسے مجھے پکار کر کہہ رہی ہو کہ آج تباہی ہوگی۔ آج نہ چھوڑوں گی تم کو۔ کیا یاد کروگے کس جذبے کو ہوا دی ہے میں نے۔ چند قدم پیچھے کھڑے ہو کر میں نے اسے مخاطب، کیا آپ کو کچھ چاہیے؟ تو اس کی نظریں میرے قدموں سے لگے ان لفافوں پہ تھی جو شاید چلتے چلتے میرے پاؤں سے لگ چکے تھے۔ اس نے پتا ہے کیا کہا؟‘‘ اسد پوری طرح متوجہ تھا۔
’’ ہمم!‘‘
’’اس نے کہا آپ کو بھی کسی نے لوٹ لیا؟‘‘ گوہر کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔
’’میں حیران ہوا جوتے بھی کوئی لونٹے کی چیز ہے ؟‘‘
’’ارے صاحب! جب روح ہی لٹ جائے، جب جسم مر جائے، جذبات کچل دیے جائیں ، وجود کی بوٹی بوٹی نوچ لی جائے، تن سے لپٹا چند گز کا کپڑا تار تار ہو جائے تو پھر پاوؑں کی جوتی ہی رہ جاتی ہے۔ میرا کل اثاثہ لمبی مسافت کی نذر ہوگیا۔‘‘وہ تلخی سے اپنے ہاتھ کو ہوا میں لہراتے ہوئے بولی تھی۔ اس کے زخمی ہونٹوں کی ذرا سی جنبش سے ادا ہونے والا وہ آخری لفظ جو مجھے سمجھ آیاکہ وہ رقاصہ تھی!
اسد جو کھڑا سن رہا تھا ایک دم زمین پر بیٹھ گیا۔
’’گوہر وہ…‘‘
’’ہاں! مجھے اس رقاصہ سے عشق ہوگیا تھا۔‘‘ اس نے بنا سوال کے جواب دیا۔ وہ سوال جو اسد کے لبوں پر مچل رہا تھا۔
’’میں کیوں چھپتا ؟کہ جس پر ایک نظر ڈالنے سے میرا سب کچھ لٹ گیا تھا، وہ ایک رقاصہ تھی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا ؟‘‘ تجسس سے پوچھا گیا۔
’’میں نے اسے اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی کہ رات بہت ہو چکی۔ سرد ہوائیں بھی اپنے عروج پر تھیں کہا، کچھ دیر قیام کر لیں پھر جہاں آپ بولیں میں چھوڑ آؤں گا۔ میری بات کے جواب میں صرف وہ ہنستی رہی۔ میں اپنی نگاہیں نیچی کیے کھڑا رہا شاید کوئی غلط بات کہہ دی۔‘‘
اگلے ہی لمحے وہ کھانستے ہوئے بولی:
’’بڑے مہذب مرد نکلے آپ تو … کوئی مول نہیں لگایا، میرے ارد گرد گھوم کر نہیں دیکھا۔ مجھے چھو کر پرکھا نہیں، آیا کہ نازک ہوں، ملائم بدن ہو، رنگ گورا ہے اور ہونٹ گلابی ہیں کیا؟ کچھ بھی نہیں ؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’دیکھ تو لو میرا حال۔ شاید آپ کی خواہش پوری نہ کر سکوں۔‘‘ ایک زہر خند مسکراہٹ اس کے لبوں پر تھی۔
’’میرا پیشہ رقص ہے،مگر میں کوئی طوائف نہیں ہوں۔ میں نے اپنا فن ضرور بیچا ہے، تن کبھی نہیں۔ پھر بھی زندہ لاش ہوں۔ کمال دیکھو، اپنی ہی لاش اپنے کندھوں پر لادے کبھی اِس چوک کبھی اُس چوک۔ جہاں جاتی ہوں بس بولی لگتی ہے۔ کوئی پوچھتا نہیں۔ ننگے پیروں کے چھالے کوئی دیکھتا ہی نہیں۔ ہاں پائل پر نظر سب کی جاتی ہے۔‘‘
گوہر اپنے آنسو صاف کررہا تھا ۔
’’جانتے ہو اسد؟پہلی بار مجھے مرد ہونا ایک گالی لگا۔ میں اپنی ہی نظر میں گر گیا۔ یہ مردوں کا معاشرہ، مجھے وحشت ہونے لگی اس لفظ سے۔ میں اس کے سامنے دو کوڑی کا نہیں رہا۔‘‘ اب کی بار شاید اسد بھی اپنی آنکھ سے آتے اس پانی کو نہ روک سکا جسے وہ کب سے ٹال رہا تھا۔
’’وہ تمہارے ساتھ آگئی تھی؟‘‘
’’ہاں! میں نے اپنے ہاتھ میں تھامی اس گرم شال کو اس کے سر پر ڈالا تھا اور پلٹ کر اسی سڑک کے کنارے چل دیا جب اس کی پائل کی آواز مجھے اپنے پیچھے آتی محسوس ہوئی تو میں نے اسے اپنے آگے چلنے کو کہا۔ وہ دیر تک مجھے دیکھتی رہی اور پھر چند قدم چلتی میرے آگے کھڑی ہوکر پوچھنے لگی:
’’مرد تو چاہتا ہے آگے ہونا، برتری حاصل کرنا عورت کو پاؤں کی جوتی بنا کر اسی کے وجود پر چلنا۔ تم کس دنیا کے ہو ؟ میرے پاس جواب ہی نہ تھے ۔ میں چپ چاپ کھڑا رہا۔ ‘‘
’’اسد وہ…‘‘ گوہر اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا جیسے بچہ کوئی من پسند چیز نہ ملنے پہ ضد میں ایک سانس چلا جائے، جس کے روتے روتے ہاتھ پاؤں برف ہو جائیں۔ آہستہ آہستہ اس کے رونے کی رفتار بڑھتی گئی۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور پھر بے ہوش ہوگیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بت شکن ۔۔۔ ملک حفصہ

Read Next

یاد دہانی — الصی محبوب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!